دمشق/واشنگٹن: ریاستہائے متحدہ امریکہ کی افواج نے شام کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے ہیں۔ یہ فوجی کارروائی نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک اہم عسکری قدم قرار دی جا رہی ہے، جس کا مقصد خطے میں مسلح گروہوں کی سرگرمیوں کو روکنا ہے۔
عسکری کارروائی کی تفصیلات
امریکی وزارتِ دفاع کے مطابق ان حملوں میں شام کے مشرقی اور شمالی حصوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بمباری کے لیے جدید جنگی طیاروں کا استعمال کیا گیا جنہوں نے ان مقامات پر گولہ باری کی جہاں مبینہ طور پر شدت پسندوں کے ٹھکانے اور اسلحہ خانے موجود تھے۔ ان حملوں کا بنیادی مقصد ان گروہوں کی صلاحیتوں کو ختم کرنا ہے جو خطے میں امریکی مفادات اور اتحادیوں کے لیے خطرہ سمجھے جاتے ہیں۔
صدارتی حکم اور پالیسی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کارروائی کی براہِ راست منظوری دی ہے۔ وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیانات میں واضح کیا گیا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ اپنی سرحدوں سے دور دشمنوں کو پنپنے کی اجازت نہیں دے گی۔ صدر کا موقف ہے کہ طاقت کا بھرپور استعمال ہی امن کے قیام کا واحد راستہ ہے اور وہ دہشت گردی کے خلاف کسی قسم کی نرمی نہیں برتیں گے۔
جانی و مالی نقصان کی اطلاعات
شام سے ملنے والی ابتدائی اطلاعات کے مطابق ان فضائی حملوں میں درجنوں مسلح افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ کئی عمارتیں اور گودام مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بمباری کے نتیجے میں عام شہریوں کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہیں اور کئی خاندانوں نے محفوظ مقامات کی طرف ہجرت شروع کر دی ہے۔
علاقائی اور عالمی ردِ عمل
- شامی حکومت: دمشق کی انتظامیہ نے ان حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے اپنی خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
- پڑوسی ممالک: ترکی اور عراق جیسے قریبی ممالک صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ شام میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے اثرات سرحد پار بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
- روس اور ایران: شام کے حامی ممالک نے اس فوجی کارروائی کو اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اس سے مشرقِ وسطیٰ کے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
مستقبل کی صورتحال
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی یہ پہلی بڑی فوجی مہم جوئی اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکہ اب شام کے معاملے میں دوبارہ سے فعال کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ آنے والے دنوں میں ان حملوں کے دائرہ کار میں اضافے کا امکان ہے، جس سے خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہو سکتا ہے۔

