Site icon URDU ABC NEWS

امریکہ کا 20 نکاتی امن منصوبہ: مشرق وسطیٰ میں استحکام کی نئی کوشش

20 points peace

عالمی سیاست میں ایک انتہائی حساس موڑ پر، امریکہ نے بالآخر مشرق وسطیٰ میں دہائیوں پرانے تنازع کے حتمی حل کے لیے اپنا طویل انتظار والا اور سب سے جامع منصوبہ، جسے ’21 نکاتی امن منصوبہ‘ کا نام دیا گیا ہے، بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ یہ منصوبہ، جو خطے میں سلامتی، دیرپا امن اور دو ریاستی حل (Two-State Solution) کو عملی جامہ پہنانے کی آخری بڑی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اس کی منظوری اور نفاذ کے لیے فریقین اور عالمی طاقتوں پر شدید دباؤ ڈال رہا ہے۔ امریکی صدر نے ایک غیر معمولی پریس کانفرنس میں اس منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے اسے ”جرات مندانہ لیکن حقیقت پسندانہ“ قرار دیا، جس کے بقول تنازع کی جڑ کو ختم کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

پس منظر: ایک حل طلب تنازع اور نئی ضرورت

یہ منصوبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرق وسطیٰ بالخصوص اسرائیل-فلسطین تنازع، ایک نئے اور زیادہ خونریز مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ غزہ میں حالیہ بڑے پیمانے پر تباہی اور مغربی کنارے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے بین الاقوامی برادری کو یہ باور کرا دیا تھا کہ صرف وقتی جنگ بندی یا عبوری معاہدے اب کافی نہیں ہیں۔ سفارتی ذرائع کے مطابق، امریکی انتظامیہ نے گزشتہ اٹھارہ ماہ سے پس پردہ غیر معمولی کوششیں کی ہیں، جس میں درجنوں علاقائی دورے، خفیہ ملاقاتیں اور اعلیٰ سطحی مشاورت شامل ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام نے اعتراف کیا ہے کہ یہ 21 نکات محض تجاویز کا مجموعہ نہیں، بلکہ ’عمل درآمد کا روڈ میپ‘ ہے جو واضح ٹائم لائن، مالیاتی گارنٹیوں اور بین الاقوامی نگرانی کے طریقہ کار پر مشتمل ہے۔ اس منصوبے کا بنیادی ہدف ایک خود مختار، قابل عمل اور پرامن فلسطینی ریاست کا قیام ہے جو اسرائیل کے ساتھ ساتھ محفوظ سرحدوں کے اندر موجود ہو۔ یہ منصوبہ تنازع کے سب سے مشکل نکات — بشمول یروشلم کا سٹیٹس، مہاجرین کا حق واپسی، اور اسرائیلی بستیوں کا مستقبل — کو ایک ساتھ حل کرنے کی کوشش کرتا ہے، جو اس کی سب سے بڑی طاقت اور کمزوری دونوں ہیں۔

امریکہ کا 20 نکاتی امن منصوبہ: مکمل خاکہ

یہ منصوبہ چار بنیادی ستونوں پر مشتمل ہے اور ہر ایک ستون ایک الگ لیکن باہم مربوط مرحلے کی نمائندگی کرتا ہے۔ ذیل میں ان 21 نکات کی تفصیل دی جا رہی ہے:

ستون اول: فوری جنگ بندی اور اعتماد سازی (نکات 1 تا 5)

اس مرحلے کا مقصد فوری طور پر تشدد کو روکنا اور فریقین کے درمیان اعتماد کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کرنا ہے۔

1. مستقل سیز فائر: تمام فریقین فوری اور مستقل سیز فائر کا اعلان کریں، جس کی نگرانی اقوام متحدہ اور کثیر الملکی افواج کریں گی۔

2. قیدیوں کا مرحلہ وار تبادلہ: ایک ہفتے کے اندر انسانی بنیادوں پر اسرائیلی قیدیوں اور فلسطینی سیاسی قیدیوں کا پہلا مرحلہ وار تبادلہ کیا جائے، جس کی تکمیل 90 دنوں کے اندر ہونی چاہیے۔

3. غزہ کی پٹی کی بحالی: غزہ کے لیے امداد کی بلاروک ٹوک فراہمی شروع کی جائے اور پہلے 60 دنوں میں تعمیر نو کے لیے ایک بین الاقوامی فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائے۔

4. غزہ کی غیر عسکری حیثیت: غزہ کی پٹی کو مکمل طور پر غیر عسکری (Demilitarized) قرار دیا جائے، جس کی تصدیق اور نگرانی فریقین کی رضامندی سے ایک بین الاقوامی سیکورٹی ادارہ کرے۔

5. یکطرفہ اقدامات پر پابندی: اسرائیل مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر کو فوری اور مستقل طور پر روکے، جبکہ فلسطینی اتھارٹی بین الاقوامی عدالتوں میں اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائیوں سے دستبردار ہو۔

ستون دوم: سیکورٹی انتظامات اور سرحدی حدود (نکات 6 تا 11)

یہ نکات دونوں ریاستوں کی سرحدوں کی حفاظت اور طویل المدتی سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے پر مرکوز ہیں۔

6. 1967 کی سرحدوں کی بنیاد: امن مذاکرات کو 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پر شروع کیا جائے، جس میں زمین کے مساوی تبادلے (Land Swaps) کے ذریعے معمولی جغرافیائی ایڈجسٹمنٹ کی اجازت ہو۔

7. اسرائیل کی سیکورٹی گارنٹی: امریکہ اور نیٹو کی جانب سے اسرائیل کی سیکورٹی کو مکمل اور غیر مشروط ضمانت فراہم کی جائے، جس میں مشترکہ دفاعی مشقیں اور انٹیلی جنس تعاون شامل ہو۔

8. مغربی کنارے میں سیکورٹی زونز: اسرائیلی دفاعی افواج کی مغربی کنارے سے مرحلہ وار مکمل دستبرداری کا منصوبہ، جس میں پہلے پانچ سال کے لیے مخصوص سٹریٹجک علاقوں میں عارضی بین الاقوامی سیکورٹی زونز قائم کیے جائیں۔

9. فلسطینی سیکورٹی فورسز کی تشکیل: امریکہ اور عرب ممالک کی معاونت سے ایک نئی، تربیت یافتہ اور احتساب کے قابل فلسطینی سیکورٹی فورس کی تشکیل کی جائے جو مغربی کنارے اور غزہ دونوں کی داخلی سلامتی کی ذمہ داری سنبھالے۔

10. ہوائی حدود کی مشترکہ نگرانی: ایک مشترکہ فضائی نگرانی کا نظام قائم کیا جائے، جس میں پہلے دس سال کے لیے اسرائیل کو فضائی حدود کی زیادہ نگرانی کا حق حاصل ہو، جو ہر سال فلسطینی خود مختاری کے حق میں کم ہوتا جائے۔

11. زیر زمین سرنگوں کا خاتمہ: ایک بین الاقوامی ٹیکنیکل ٹیم غزہ کی پٹی کے نیچے تمام زیر زمین سرنگوں اور عسکری انفراسٹرکچر کے خاتمے کی نگرانی کرے۔

ستون سوم: فلسطینی ریاست کا قیام اور خودمختاری (نکات 12 تا 16)

یہ سب سے حساس مرحلہ ہے، جو فلسطینی ریاست کے قیام کے طریقہ کار، دارالحکومت اور مہاجرین کے مسئلے کو حل کرتا ہے۔

12. فلسطینی ریاست کا رسمی اعلان: طے شدہ ٹائم لائن (منصوبہ کے تین سال کے اندر) پر اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت کے ساتھ ’ریاست فلسطین‘ کا رسمی اعلان کیا جائے۔

13. یروشلم کا سٹیٹس: یروشلم (مشرقی اور مغربی) کو دو ریاستوں کے دو دارالحکومتوں کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ مشرقی یروشلم فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہو، جبکہ مغربی یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت رہے۔

14. مقدس مقامات کی انتظامیہ: یروشلم کے مقدس مقامات (بشمول حرم شریف/ٹیمپل ماؤنٹ) کے انتظام کے لیے ایک مشترکہ بین الاقوامی ٹرسٹی شپ قائم کی جائے، جس میں اردن، فلسطین، اسرائیل اور امریکہ شامل ہوں۔

15. مہاجرین کا حق واپسی: 1948 کے فلسطینی مہاجرین کے مسئلے کو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مخصوص معاوضے اور محدود واپسی کے ذریعے حل کیا جائے۔ منصوبے میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر مہاجرین کو نئی فلسطینی ریاست یا تیسرے ممالک میں آبادکاری کے لیے مالی معاوضہ دیا جائے گا۔

16. مغربی کنارے کی بستیوں کا انخلاء: اسرائیلی حکومت مغربی کنارے میں ان تمام بستیوں سے انخلاء کا ٹائم ٹیبل دے جو زمین کے مجوزہ تبادلے میں اسرائیل کا حصہ نہیں بنیں گی۔ امریکہ اس انخلاء کے عمل کے لیے مالی اور تکنیکی مدد فراہم کرے گا۔

ستون چہارم: اقتصادی خوشحالی اور علاقائی انضمام (نکات 17 تا 21)

اس مرحلے کا مقصد امن کو اقتصادی محرکات اور علاقائی تعاون کے ذریعے پائیدار بنانا ہے۔

17. مارشل پلان برائے مشرق وسطیٰ: امریکہ، یورپی یونین، اور خلیجی ممالک کی جانب سے 100 بلین ڈالر کا ایک علاقائی ترقیاتی فنڈ قائم کیا جائے، جس کا بنیادی مقصد فلسطینی ریاست کی معیشت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کی تعمیر ہو۔

18. بحر احمر اور بحیرہ روم کے درمیان راہداری: فلسطینی ریاست کے لیے مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان ایک محفوظ زمینی راہداری (Secure Passage) کی تعمیر اور ضمانت دی جائے تاکہ فلسطینی ریاست کی جغرافیائی و اقتصادی عملداری یقینی ہو سکے۔

19. مکمل علاقائی معمول پرستی: فلسطینی ریاست کے قیام کے ایک سال کے اندر، تمام عرب ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں (بشمول سعودی عرب)، اسرائیل کے ساتھ مکمل معمول پرستی (Full Normalization) کے معاہدوں پر دستخط کریں۔

20. واٹر اور انرجی مینجمنٹ: ایک مشترکہ واٹر اور انرجی کونسل قائم کی جائے جو علاقے کے محدود پانی اور توانائی کے وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے۔

21. بین الاقوامی نفاذ اتھارٹی: اس منصوبے کے نفاذ کی نگرانی کے لیے ایک بین الاقوامی نفاذ اتھارٹی (International Implementation Authority) تشکیل دی جائے، جو امریکی اور اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ہو۔ اس اتھارٹی کے پاس منصوبے کی خلاف ورزی کرنے والے فریقین پر پابندیاں عائد کرنے کا اختیار بھی ہو۔

اسرائیلی رد عمل: تشویش اور محتاط قبولیت

اسرائیلی حکومت نے اس منصوبے پر محتاط انداز میں رد عمل ظاہر کیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے تسلیم کیا کہ یہ منصوبہ “تاریخی نوعیت کا” ہے، لیکن ساتھ ہی کئی اہم تحفظات بھی اٹھائے ہیں۔

تحفظات:

اسرائیل کا بنیادی زور اس بات پر ہے کہ اگر وہ منصوبہ قبول کرتا ہے، تو امریکہ کو اسرائیلی سیکورٹی کی گارنٹی کو مزید مضبوط بنانا ہو گا، اور فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے تمام عسکری ڈھانچے کے مکمل خاتمے کی ضمانت درکار ہو گی۔

فلسطینی رد عمل: امید اور شدید تنقید

فلسطینی قیادت، بشمول فلسطینی اتھارٹی اور حماس، دونوں نے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کا رد عمل:

فلسطینی اتھارٹی نے ایک خود مختار ریاست کے رسمی وعدے اور 1967 کی سرحدوں کو بنیادی نقطہ آغاز تسلیم کرنے کا خیرمقدم کیا ہے۔ تاہم، مہاجرین کے حق واپسی کے جزوی حل اور یروشلم کے مقدس مقامات کی مشترکہ ٹرسٹی شپ پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ فلسطینی مذاکرات کاروں نے اسے “بنیادی حقوق سے دستبرداری” قرار دیا ہے۔ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ تمام بستیوں سے فوری اور غیر مشروط انخلاء کو یقینی بنایا جائے۔

حماس کا رد عمل:

غزہ میں حماس نے اس منصوبے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے “امریکی-اسرائیلی سازش” قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ فلسطینی عوام کے مکمل حق واپسی اور تمام مقبوضہ علاقوں سے غیر مشروط آزادی کی ضمانت نہیں دیتا۔ ان کا موقف ہے کہ جب تک اسرائیلی فوج کی موجودگی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی، امن کا کوئی بھی منصوبہ بے سود ہے۔

علاقائی طاقتوں کا کردار: عرب ممالک اور عالمی حمایت

اس منصوبے کی کامیابی کا انحصار عرب ممالک کے دباؤ اور اقتصادی حمایت پر ہے۔

سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں:

سعودی عرب نے اس منصوبے کو “امن کے لیے ایک آخری موقع” قرار دیا ہے، لیکن مکمل معمول پرستی کو فلسطینی ریاست کے حتمی اور قابل عمل قیام سے مشروط کیا ہے۔ خلیجی ممالک نے علاقائی ترقیاتی فنڈ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے، بشرطیکہ اسرائیل منصوبہ پر مکمل عمل درآمد کرے۔ یہ ان کی طرف سے ایک بڑا لیوریج (Leverage) سمجھا جا رہا ہے۔

یورپی یونین اور اقوام متحدہ:

یورپی یونین نے منصوبہ کی پرزور حمایت کی ہے اور 21 نکات کے نفاذ کے لیے بین الاقوامی نگرانی میں بھرپور کردار ادا کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اس کوشش کو سراہا ہے اور تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ اس تاریخی موقع کو ضائع نہ کریں۔

عمل درآمد کی راہ میں سب سے بڑے چیلنجز

اس منصوبے کی شاندار سفارتی پیشکش کے باوجود، اس کے نفاذ کی راہ میں عملی اور سیاسی رکاوٹیں پہاڑ جیسی ہیں۔

  1. داخلی تقسیم: فلسطینی فریقین (فلسطینی اتھارٹی اور حماس) کے درمیان سیاسی تفریق اور غزہ کی سیکورٹی پر کنٹرول کا مسئلہ۔ جب تک ایک متحد اور مستحکم فلسطینی انتظامیہ نہیں بنتی، اسرائیل مکمل انخلاء پر آمادہ نہیں ہو گا۔
  2. بستیوں کا انخلاء: مغربی کنارے کی بستیوں میں لاکھوں اسرائیلی آباد ہیں۔ ان میں سے ایک بڑے حصے کا انخلاء اسرائیلی سیاست میں شدید اندرونی بحران پیدا کر سکتا ہے، جس سے کوئی بھی اسرائیلی حکومت گریزاں ہو گی۔
  3. انتہا پسندی کا خطرہ: دونوں طرف کے انتہا پسند گروہ اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے پرتشدد کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے بین الاقوامی سیکورٹی زونز کو انتہائی چوکس رہنے کی ضرورت ہو گی۔
  4. ٹائم لائن کا دباؤ: منصوبے کی کامیابی کے لیے سخت ٹائم لائن رکھی گئی ہے، لیکن میدان کی حقیقتیں اور زمینی حقائق اکثر سفارتی معاہدوں میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔ ایک بھی بڑی تاخیر اعتماد کو ختم کر سکتی ہے۔

تجزیہ: ایک ’آخری بڑا داؤ‘

امریکی انتظامیہ نے یہ منصوبہ پیش کر کے ایک بڑا سیاسی داؤ کھیلا ہے۔ 21 نکات کی تفصیلی نوعیت، جو سیکورٹی سے لے کر مہاجرین اور معیشت تک ہر مسئلے کو چھوتی ہے، یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ تنازع کو محض حل کرنے نہیں بلکہ ختم کرنے پر بضد ہے۔

یہ منصوبہ دونوں فریقوں سے سخت اور تاریخی سمجھوتوں کا تقاضا کرتا ہے۔ اسرائیل کو اپنے سیکورٹی خطرات کے باوجود جغرافیائی واپسی اور ایک قابل عمل فلسطینی ریاست کو قبول کرنا ہو گا۔ فلسطینیوں کو مہاجرین کے حق واپسی کے مطالبے اور مقدس مقامات پر مکمل خودمختاری جیسے جذباتی نکات پر حقیقت پسندانہ سمجھوتہ کرنا ہو گا۔

سفارتی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ اگرچہ کامل نہیں، لیکن یہ برسوں کی خاموشی اور عبوری اقدامات کے بعد ایک مکمل اور تفصیلی فریم ورک کی پیشکش ہے۔ اگر یہ ناکام ہوتا ہے، تو امریکہ کے پاس مستقبل میں مشرق وسطیٰ کے تنازع کو حل کرنے کے لیے کوئی دوسرا، اس سے زیادہ جامع راستہ شاید باقی نہ رہے۔ اس لیے، آئندہ چند ماہ فریقین کے سیاسی عزم اور عالمی حمایت کے امتحان کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔

Exit mobile version