Site icon URDU ABC NEWS

بیٹی باپ کی جائیداد میں حصہ کا دعویٰ کب نہیں کر سکتی؟ ہائی کورٹ نے وراثت کے لیے اہم شرط طے کر دی

Daughter claim in father's property

ہندوستان میں وراثت کے قوانین، خصوصاً ہندو جوائنٹ فیملی پراپرٹی کے حوالے سے، ایک نیا اور اہم عدالتی فیصلہ سامنے آیا ہے۔ ایک حالیہ فیصلے میں، ہائی کورٹ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ بیٹیاں اپنے باپ کی جائیداد میں حصہ کا دعویٰ کب نہیں کر سکتیں، اور وراثت حاصل کرنے کے لیے بنیادی قانونی شرط کیا ہوگی۔ اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، یہ فیصلہ خاندانی جائیدادوں کی تقسیم کے پرانے تنازعات کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔

ہائی کورٹ کا کلیدی فیصلہ: “ہونے کا دعویٰ”

عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ کوئی بھی بیٹی اپنے باپ کی خود حاصل کردہ (Self-Acquired) جائیداد یا آبائی جائیداد (Ancestral Property) میں حصہ صرف اس صورت میں لے سکتی ہے جب جائیداد تقسیم کیے بغیر انتقال کر گئی ہو۔ اگر کسی باپ نے اپنی زندگی میں جائیداد کی تقسیم (Partition) کا عمل مکمل کر لیا تھا، تو پھر بیٹیاں اس تقسیم شدہ حصے میں مزید حصہ داری کا دعویٰ نہیں کر سکتیں۔

عدالتی فیصلے کا بنیادی نکتہ:

“وراثت میں حصہ داری کا حق صرف اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے جب متوفی کی جائیداد تقسیم کیے بغیر باقی ہو۔ اگر باپ نے اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کر دی تھی، تو بیٹیاں مزید حصے کا دعویٰ نہیں کر سکتیں کیونکہ ان کے حق کا ‘وجود’ (Existence of claim) تقسیم سے پہلے ہی ختم ہو چکا ہوتا ہے۔”

عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ اگر جائیداد کی تقسیم ہو چکی ہے، اور بیٹیاں اس تقسیم کے بعد اپنے باپ کے حصے میں مزید حصہ مانگ رہی ہیں، تو قانون انہیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔

تقسیم کی تعریف: زبانی یا تحریری؟

قانونی نقطہ نظر سے، ‘تقسیم’ (Partition) کا مطلب صرف تحریری دستاویز (جیسے رجسٹرڈ پارٹیشن ڈیڈ) نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ:

  1. زبانی تقسیم (Oral Partition): بعض صورتوں میں، خاندانوں کے درمیان جائیداد کی زبانی تقسیم یا طرز عمل کے ذریعے تقسیم بھی قانونی طور پر تسلیم کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ یہ ثابت ہو کہ تمام فریقین نے اس تقسیم کو قبول کر لیا تھا اور اس کے مطابق جائیداد کا استعمال شروع کر دیا تھا۔
  2. تصرف کی تبدیلی: اگر جائیداد کی تقسیم کے بعد ہر شریک (Co-parcener) نے اپنے حصے پر علیحدہ اور مخصوص قبضہ (Exclusive Possession) کر لیا ہو، تو یہ تقسیم کا واضح ثبوت ہوتا ہے۔

اگر کسی بھی شکل میں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ باپ نے اپنی زندگی میں جائیداد میں اپنے حصے کو دیگر شرکاء سے الگ کر لیا تھا، تو بیٹی صرف اسی حصے میں وراثت کا دعویٰ کر سکتی ہے جو تقسیم کے بعد باپ کے نام پر تھا۔ وہ مجموعی آبائی جائیداد میں حصہ داری کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔

ہندو جانشینی ایکٹ میں ترمیم کا اثر

یہ فیصلہ ہندو جانشینی ایکٹ (Hindu Succession Act) 2005 کی روح کے مطابق ہے، جس نے آبائی جائیداد میں بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر حصہ دار (Co-parcener) کا حق دیا ہے۔ تاہم، اس فیصلے نے یہ حد مقرر کر دی ہے کہ:

یہ فیصلہ خاص طور پر ان معاملات میں اہم ہے جہاں باپ طویل عرصے قبل انتقال کر چکے ہیں اور جائیداد میں حصہ داری کا دعویٰ کئی دہائیوں بعد کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ جائیداد کی تقسیم کی تاریخ اور نوعیت وراثت کے دعوے کی قبولیت کے لیے سب سے زیادہ اہم ہوگی۔

خاندانی جائیداد کے لیے اہم پیغام

اس عدالتی فیصلے نے ہندوستانی خاندانوں کے لیے ایک اہم پیغام دیا ہے: جائیداد کے تنازعات سے بچنے کے لیے:

  1. وصیت کی اہمیت: باپ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی خود حاصل کردہ جائیداد (Self-Acquired Property) کے لیے واضح وصیت (Will) تیار کرے تاکہ انتقال کے بعد تنازعات پیدا نہ ہوں۔
  2. تقسیم کی دستاویز بندی: اگر خاندان کی آبائی جائیداد تقسیم کی جا رہی ہے، تو اس عمل کو باضابطہ طور پر رجسٹرڈ پارٹیشن ڈیڈ کے ذریعے مکمل کیا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں زبانی تقسیم کے ثبوت کے حوالے سے ابہام پیدا نہ ہو۔

یہ فیصلہ قانونی وراثت کے اصولوں کو مزید مضبوط کرتا ہے اور بیٹیوں کے حقوق کو ایک قانونی ڈھانچے کے اندر مشروط کرتا ہے، جس سے خاندانی عدالتوں میں آنے والے پیچیدہ جائیداد کے مقدمات کو نمٹانے میں مدد ملے گی۔

Exit mobile version