پاکستان کے توانائی کے شعبے کے لیے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں پشاور بلاک میں تیل اور گیس کی تلاش کا کام بین الاقوامی کمپنیوں کے اشتراک سے دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔ اس اقدام کو ملک کی توانائی کی حفاظت (Energy Security) کو مضبوط بنانے اور درآمدی بل کو کم کرنے کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ پشاور بلاک، جو جغرافیائی طور پر سوات، مردان، اور پشاور سمیت خیبر پختونخواہ کے وسیع علاقوں پر محیط ہے، کو تیل اور گیس کے وافر ذخائر کی غیر مستحکم صلاحیت کے حامل علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
تلاش کے عمل میں بین الاقوامی اور مقامی تعاون
حکومت نے اس تلاش کے عمل کو کامیاب بنانے کے لیے ایک جدید اور مضبوط حکمت عملی اپنائی ہے۔ اس بلاک میں کام کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستانی اور عالمی تیل و گیس کمپنیوں نے مل کر جوائنٹ وینچر (Joint Venture) قائم کیا ہے۔
۱۔ عالمی سطح کی مہارت اور ٹیکنالوجی
اس منصوبے میں شمولیت اختیار کرنے والی عالمی کمپنیاں اپنے ساتھ جدید ترین جیو فزیکل (Geophysical) سروے ٹیکنالوجی اور گہرے زیر زمین ڈرلنگ کی مہارت لا رہی ہیں۔ پشاور بلاک کے بعض حصے پیچیدہ جغرافیائی ساخت رکھتے ہیں، جہاں جدید تھری ڈی (3D) سیسمک امیجنگ اور ڈرلنگ کی مہارت کی اشد ضرورت ہے۔ عالمی شراکت داری یقینی بنائے گی کہ تلاش کا کام بین الاقوامی معیار کے مطابق ہو اور کامیابی کے امکانات کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔
۲۔ مقامی کمپنیوں کا کلیدی کردار
مقامی پاکستانی کمپنیاں نہ صرف مالی شراکت دار کے طور پر شامل ہیں بلکہ وہ علاقائی معلومات، لاجسٹک مدد، اور حکومتی قواعد و ضوابط کی سمجھ فراہم کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کریں گی۔ اس اشتراک سے ایک ایسا مضبوط امتزاج پیدا ہو گا جو عالمی مہارت اور مقامی عملی تجربے کو یکجا کرے گا۔
پشاور بلاک کی تاریخی اور اسٹریٹیجک اہمیت
پشاور بلاک طویل عرصے سے پاکستان کے توانائی کے نقشے پر ایک اہم مقام رکھتا ہے۔
ماضی کی رکاوٹیں اور دوبارہ توجہ
ماضی میں، اس بلاک میں تلاش کے کچھ منصوبے تکنیکی چیلنجز، مالیاتی رکاوٹوں، اور بعض علاقوں میں سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے مکمل نہیں ہو سکے تھے۔ موجودہ کوششیں ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایک جامع پلان کے تحت کی جا رہی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس بار تلاش کے لیے زیادہ گہرائی میں ڈرلنگ کی جائے گی اور ان مقامات پر توجہ دی جائے گی جہاں سے ذخائر کی دریافت کے واضح اشارے ملے ہیں۔
خیبر پختونخواہ کی معاشی ترقی کا انجن
اس بلاک میں تیل یا گیس کی کامیاب دریافت خیبر پختونخواہ کی معیشت کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف صوبے کو رائلٹی اور دیگر مالی فوائد حاصل ہوں گے بلکہ مقامی سطح پر روزگار کے ہزاروں نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ سیکیورٹی کی صورتحال میں بہتری کے بعد یہ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ منصوبہ تیزی سے آگے بڑھے گا۔
ملکی معیشت پر متوقع اثرات
پشاور بلاک کی سرگرمیوں میں تیزی آنے کے قومی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
۱۔ توانائی کی خود انحصاری (Self-Sufficiency)
پاکستان اس وقت اپنی توانائی کی ضروریات کا ایک بڑا حصہ درآمد کرتا ہے، جس سے ملک کا درآمدی بل اور تجارتی خسارہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ پشاور بلاک میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر کی دریافت ملک کو تیل و گیس کی پیداوار میں خود کفیل بنانے کی جانب ایک بڑا قدم ہو گی۔ اس سے قیمتی غیر ملکی زرمبادلہ کی بچت ہو گی۔
۲۔ سرمایہ کاری اور اعتماد میں اضافہ
بین الاقوامی کمپنیوں کی جانب سے پاکستان کے پیچیدہ بلاکس میں سرمایہ کاری ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کا مظہر ہے۔ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ حکومت کی جانب سے توانائی کے شعبے میں متعارف کرائی گئی پالیسیاں بین الاقوامی معیار پر پورا اتر رہی ہیں۔
۳۔ سیکیورٹی اور استحکام
تیل و گیس کے منصوبے عموماً ان علاقوں میں استحکام اور سیکیورٹی کو مزید بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں جہاں وہ موجود ہوتے ہیں۔ اس منصوبے کی کامیابی خیبر پختونخواہ میں معاشی سرگرمیوں کے ذریعے امن اور ترقی کو فروغ دے گی۔
حکومتی اور کاروباری حلقوں کا ردعمل
وزارت توانائی کے حکام نے اس نئے اشتراک کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پشاور بلاک پاکستان کے توانائی کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام شراکت داروں کو مطلوبہ ریگولیٹری معاونت فراہم کی جائے گی تاکہ ڈرلنگ کا عمل جلد شروع ہو سکے۔
تیل و گیس کے تجزیہ کاروں نے اسے ایک جرأت مندانہ اور بروقت فیصلہ قرار دیا ہے، کیونکہ عالمی مارکیٹ میں توانائی کی قیمتوں میں غیر یقینی صورتحال موجود ہے۔ ان کے مطابق، یہ منصوبہ ملک کے خام مال کے شعبے میں ترقی کی نئی راہیں کھولے گا اور مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں اضافہ کرے گا۔
خلاصہ یہ کہ، پشاور بلاک میں عالمی اور مقامی کمپنیوں کا مشترکہ اقدام پاکستان کے توانائی کے شعبے کے لیے ایک نیا باب کھولنے جا رہا ہے، جس سے خیبر پختونخواہ کی مقامی ترقی کے ساتھ ساتھ ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں بھی مدد ملے گی۔