پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پار تجارت میں حالیہ مہینوں کے دوران غیر معمولی اور تشویشناک کمی دیکھنے میں آئ ہے۔ یہ کمی دونوں ممالک کے درمیان تاریخی اور روایتی تجارتی تعلقات کے لیے ایک سنگین چیلنج بن کر ابھری ہے اور اس کا براہ راست اثر خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی مقامی معیشتوں پر پڑ رہا ہے۔ تجارتی اعداد و شمار کے مطابق، سالانہ تجارتی حجم جو ماضی میں ایک پرکشش سطح پر تھا، اب متعدد حکومتی پالیسیوں، سرحدوں پر سخت انتظامی اقدامات، اور سیاسی تناؤ کی وجہ سے تیزی سے سکڑ رہا ہے۔
تجارتی حجم میں کمی کی اہم وجوہات
تجارتی کمی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں پالیسی سازی کی سطح پر تبدیلیوں سے لے کر زمینی حقائق تک شامل ہیں۔
۱۔ درآمدی اور برآمدی پالیسیوں میں سختی
پاکستان کی جانب سے حال ہی میں درآمدات اور برآمدات کے لیے نئے اور سخت ریگولیٹری تقاضے نافذ کیے گئے ہیں۔ خاص طور پر، سامان کی ترسیل کے طریقہ کار (Procedure) میں پیچیدگیاں، دستاویزات کی سخت جانچ، اور سرحد پر طویل انتظار کے اوقات نے تاجر برادری کو شدید مشکلات سے دوچار کیا ہے۔
- بینکنگ چینلز کا استعمال: حکومت کی کوشش ہے کہ غیر رسمی تجارت (Informal Trade) کو ختم کر کے تمام تجارتی لین دین کو باضابطہ بینکنگ چینلز کے ذریعے کیا جائے، جو کہ ایک مثبت قدم ہے، مگر اس نئے نظام کے نفاذ میں ابتدائی رکاوٹوں نے بھی تجارتی حجم کو کم کر دیا ہے۔
۲۔ سرحدوں پر سخت انتظامی کنٹرول
سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر طورخم اور چمن جیسے اہم سرحدی راستوں پر نقل و حرکت اور سامان کی کلیئرنس کے عمل کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔
- امیگریشن اور سیکیورٹی اقدامات: سرحد پر سیکیورٹی کے سخت اقدامات کے سبب ٹرانسپورٹرز اور ڈرائیوروں کو طویل قطاروں میں انتظار کرنا پڑتا ہے، جس سے اشیاء کی تازگی اور بروقت ترسیل متاثر ہوتی ہے۔ اس تاخیر کے باعث کاروباری لاگت میں اضافہ ہوا ہے، جس کا بوجھ بالآخر صارفین پر پڑتا ہے۔
۳۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ (ATT) پر تناؤ
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے پاکستان کی نئی پالیسیوں اور افغان حکومت کے ردعمل نے بھی صورتحال کو خراب کیا ہے۔ افغانستان نے متبادل تجارتی راستوں جیسے کہ ایران کی بندرگاہوں اور وسطی ایشیائی ممالک کے راستے استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں، جس سے پاکستان کے ذریعے ہونے والی ٹرانزٹ تجارت میں نمایاں کمی آئی ہے۔
معاشی اور مقامی اثرات
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی حجم میں کمی کے دونوں ممالک کی معیشتوں اور خاص طور پر سرحدی علاقوں کی عوام پر گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
۱۔ ملازمتوں اور کاروبار کا نقصان
پشاور، کوئٹہ اور کراچی کی بڑی منڈیوں میں ہزاروں افراد کا روزگار براہ راست اس تجارت سے وابستہ ہے۔ تجارتی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے کئی کاروباری ادارے بند ہو گئے ہیں اور ٹرانسپورٹ سیکٹر سے وابستہ مزدور اور ڈرائیورز بے روزگاری کا شکار ہو رہے ہیں۔
۲۔ قیمتوں میں اضافہ
غیر رسمی تجارت پر قدغن اور باضابطہ تجارت میں رکاوٹوں کے باعث اشیائے خورد و نوش اور دیگر ضروری سامان کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان میں پاکستانی مصنوعات کی کمی اور مہنگائی دونوں ممالک کے صارفین کو متاثر کر رہی ہے۔
۳۔ حکومتی ریونیو پر اثر
سرحدی تجارت میں کمی کا مطلب ہے کہ پاکستان کے کسٹمز اور دیگر متعلقہ اداروں کے لیے ٹیکس اور ڈیوٹی ریونیو میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ کمی ایک ایسے وقت میں قومی خزانے پر بوجھ ڈال رہی ہے جب ملک پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہے۔
حل کے لیے حکومتی اور سفارتی کوششیں
اس بحران پر قابو پانے کے لیے دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان سفارتی سطح پر بات چیت جاری ہے۔ پاکستان کی وزارت تجارت اور دیگر اعلیٰ حکام نے تاجروں کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں اور یقین دہانی کرائی ہے کہ تجارت کو آسان اور تیز بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
- ونڈو آپریشنز کی بحالی: سرحدی کراسنگ پوائنٹس پر “ونڈو آپریشنز” کو بحال کرنے اور کسٹم کلیئرنس کے عمل کو مزید تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔
- تاجروں کو سہولیات: تاجر برادری نے مطالبہ کیا ہے کہ نئی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے انہیں مناسب تربیت اور وقت دیا جائے، اور سرحد پر غیر ضروری کاغذی کارروائی (Documentation) کو کم کیا جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک دونوں ممالک اپنے پالیسی اختلافات کو حل نہیں کرتے اور تجارت کے لیے دوستانہ ماحول بحال نہیں کرتے، اس کمی کو پورا کرنا مشکل ہو گا۔ پاک-افغان تجارت کی بحالی نہ صرف معاشی ضرورت ہے بلکہ علاقائی استحکام کے لیے بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔