SEO کلیدی الفاظ: جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منصور علی شاہ استعفیٰ، عدلیہ کی آزادی، پاکستان سپریم کورٹ، آ بحران، ججز کا مؤقف، 27ویں آئینی ترمیم
عدالتی تاریخ کا اہم ترین لمحہ: دو سینئر ججوں کا تاریخی فیصلہ
اسلام آباد: پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک غیر معمولی اور تہلکہ خیز پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو سینئر اور انتہائی محترم ججوں، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان ججوں کا یہ غیر متوقع فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ملک کی عدلیہ ایگزیکٹو کی جانب سے مبینہ مداخلت اور 27ویں آئینی ترمیم جیسے متنازعہ قانون سازی کے خلاف شدید دباؤ کا سامنا کر رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق، دونوں ججوں نے اپنے استعفے چیف جسٹس آف پاکستان کو ارسال کر دیے ہیں، اور قیاس ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ ملک میں عدلیہ کی آزادی کے منظم زوال اور آئینی اداروں کے کمزور ہونے پر اپنے گہرے تحفظات کے باعث کیا ہے۔
مستعفی ہونے کی وجوہات
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کا شمار ہمیشہ ان ججوں میں ہوتا رہا ہے جنہوں نے آئین کی بالادستی اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جرات مندانہ اور واضح مؤقف اپنایا ہے۔ ان کے استعفوں کے پیچھے درج ذیل اہم عوامل کار فرما سمجھے جا رہے ہیں:
- 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف مزاحمت: دونوں جج حال ہی میں چیف جسٹس کو لکھے گئے خطوط میں 27ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ کے اختیارات کو کمزور کرنے کی کوشش قرار دے چکے تھے۔ انہوں نے زور دیا تھا کہ یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی کو مستقل طور پر ختم کر دے گی۔
- عدالتی معاملات میں مبینہ مداخلت: جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ، دونوں اس بینچ کا حصہ رہے ہیں جنہوں نے خفیہ ایجنسیوں کی عدالتی امور میں مبینہ مداخلت کے معاملات پر کھل کر بات کی اور اس کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
- فل کورٹ اجلاس کا مطالبہ نظر انداز: ججوں نے موجودہ بحران پر عدلیہ کا اجتماعی مؤقف واضح کرنے کے لیے بارہا فل کورٹ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا، جس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
قانونی اور سیاسی ردعمل
ان دو اہم ججوں کا استعفیٰ ملک کے قانونی اور سیاسی منظر نامے پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کرے گا۔
- بار کونسلز کا ردعمل: ملک بھر کی بار کونسلز نے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے عدلیہ کے اندر موجود شدید تقسیم اور آئینی بحران کی واضح علامت قرار دیا ہے۔
- حکومتی پوزیشن: حکومت کو اب عدلیہ کی آزادی سے متعلق بین الاقوامی اور داخلی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا، اور اسے ان سینیئر ججوں کے تحفظات کا جواب دینا پڑے گا جن کے استعفوں کو عدلیہ کی تاریخ میں ایک احتجاجی اقدام کے طور پر دیکھا جائے گا۔
- زیر التوا مقدمات: دونوں ججوں کے استعفے سے سپریم کورٹ میں زیر التوا اہم آئینی مقدمات کی سماعت پر بھی فرق پڑے گا اور بینچوں کی تشکیل میں نئے چیلنجز سامنے آئیں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ استعفے ایک واضح پیغام ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے سینیئر ارکان اب ادارہ جاتی استحکام کی قیمت پر خاموشی اختیار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

