ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات نے غزہ میں جنگ کے بعد استحکام اور امن و امان قائم کرنے کے لیے مجوزہ بین الاقوامی فورس میں شمولیت سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اماراتی حکام نے اس فورس میں کسی بھی طرح کی شرکت کے لیے واضح اور قانونی طور پر منظور شدہ فریم ورک کی شرط عائد کر دی ہے، جس سے اس حساس خطے میں جنگ کے بعد کے منصوبوں کی پیچیدگیوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
امارات کا دوٹوک مؤقف
گارڈین کی رپورٹ کے مطابق، متحدہ عرب امارات کا مؤقف نہایت دوٹوک ہے: وہ کسی بھی ایسے سیکیورٹی مشن کا حصہ نہیں بنیں گے جس کے مینڈیٹ اور طویل مدتی اہداف واضح نہ ہوں۔ حکام نے زور دیا ہے کہ غزہ میں استحکام کے لیے کسی بھی فورس کی تعیناتی سے قبل یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ:
- قانونی جواز (Legal Mandate): اس فورس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) یا کسی دیگر معتبر بین الاقوامی ادارے کی جانب سے واضح قانونی مینڈیٹ حاصل ہو۔
- سیاسی حل: فورس کی تعیناتی کا مقصد صرف سیکیورٹی نہیں، بلکہ اسے ایک جامع اور قابل قبول سیاسی حل کی طرف لے جانے کا راستہ بنانا چاہیے۔
- فلسطینی خودمختاری: اس منصوبے میں فلسطینی عوام کے مستقبل اور خود مختاری کا احترام اولین ترجیح ہو۔
ایک سینئر اماراتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، “ہم ماضی میں بھی کئی مشکل مشنز میں حصہ لے چکے ہیں، لیکن ہم صرف اس مشن کا حصہ بنیں گے جس کی کامیابی کے واضح امکانات ہوں۔ ایک غیر واضح منصوبے پر سیکیورٹی فورس بھیجنا صرف فوجیوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہو گا، اور اس سے غزہ کے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔”
بین الاقوامی مذاکرات پر اثرات
امارات کا یہ فیصلہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، جو غزہ پر اسرائیل کے حملے کے بعد امن و امان قائم کرنے کے لیے مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات جیسے علاقائی شراکت داروں کی شرکت پر انحصار کر رہے تھے۔
خطے کا کردار: خلیجی ممالک، خصوصاً متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو اس لیے کلیدی حیثیت دی جا رہی تھی کیونکہ ان کے پاس مشن کو فنڈ فراہم کرنے اور اسرائیلی حکومت سے براہ راست بات چیت کے لیے سفارتی راستہ موجود ہے۔ امارات کے انکار نے اب سیکیورٹی خلا کو پر کرنے اور بحالی کے فنڈز فراہم کرنے کے عمل کو مزید غیر یقینی بنا دیا ہے۔
مصر اور اردن کا مؤقف: اگرچہ مصر اور اردن اس علاقے سے براہ راست منسلک ہیں، لیکن وہ بھی اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ غزہ کا مستقبل فلسطینی اتھارٹی کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے اور کسی بھی بین الاقوامی فورس کا کام اسرائیل کے مستقل قبضے کو سہارا دینا نہیں ہونا چاہیے۔
اسرائیل اور حماس کی پوزیشن
غزہ میں سیکیورٹی اور استحکام کا مسئلہ براہ راست اسرائیل اور حماس کی پوزیشن سے جڑا ہوا ہے۔
- اسرائیل کا کنٹرول: اسرائیل نے واضح کیا ہے کہ وہ غزہ کی سیکیورٹی پر مکمل کنٹرول رکھنا چاہتا ہے اور کسی ایسی فورس کو قبول نہیں کرے گا جو اس کے مفادات کے خلاف ہو۔
- حماس کا ردعمل: دوسری جانب، حماس نے ہر اس بین الاقوامی فورس کو مسترد کر دیا ہے جو فلسطینیوں کی مرضی کے خلاف یا اسرائیلی مفادات کے تحت کام کرے۔
متحدہ عرب امارات، جو حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا پہلا خلیجی ملک بنا تھا، کا یہ مطالبہ کہ فورس کو واضح قانونی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے، خطے میں ایک وسیع سیاسی اتفاق رائے کی عدم موجودگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
مستقبل کا لائحہ عمل
امارات کا یہ مؤقف بین الاقوامی برادری پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ غزہ کے مستقبل کے لیے کسی بھی سیکیورٹی پلان کو جلد بازی میں تیار نہ کرے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس فورس کی تشکیل اب صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکے گی جب کوئی مضبوط بین الاقوامی طاقت (جیسے اقوام متحدہ یا بڑی یورپی طاقتیں) اس کی قیادت سنبھالے اور فنڈز فراہم کرے، اور تمام متعلقہ فریقین کے لیے ایک غیر جانبدار اور تسلی بخش سیاسی روڈ میپ پیش کرے۔
امارات کے انکار نے یہ واضح کر دیا ہے کہ جنگ کے بعد کے حل میں صرف پیسہ یا فوجی دستے بھیجنا کافی نہیں، بلکہ مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے ٹھوس سیاسی، قانونی اور اخلاقی بنیادوں کی ضرورت ہے۔

