Site icon URDU ABC NEWS

ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر روایتی سفیروں کا انتخاب اور عالمی سیاست پر اثرات

US recall several ambassadors

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کے لیے مختلف ممالک میں سفیروں کی تقرری کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ ان تقرریوں کی خاص بات یہ ہے کہ صدر نے روایتی سفارت کاروں کے بجائے اپنے قریبی وفاداروں، کاروباری شخصیات اور سیاسی اتحادیوں کو ترجیح دی ہے، جس نے واشنگٹن کے سیاسی اور سفارتی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

غیر روایتی تقرریوں کی نوعیت

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سفیروں کے عہدوں کے لیے جن ناموں پر غور کیا جا رہا ہے یا جن کا اعلان کیا گیا ہے، ان میں سے بیشتر وہ افراد ہیں جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران صدر کا بھرپور ساتھ دیا۔

اہم ممالک اور متوقع نام

رپورٹ میں اشارہ دیا گیا ہے کہ حساس نوعیت کے ممالک، جہاں امریکہ کے تزویراتی مفادات وابستہ ہیں، وہاں صدر ٹرمپ ایسے افراد کو بھیجنا چاہتے ہیں جو براہِ راست ان کے اعتماد پر پورا اترتے ہوں۔

  1. برطانیہ اور یورپی یونین: ان اہم مقامات کے لیے ایسے نام سامنے آ رہے ہیں جو یورپی یونین کی موجودہ تجارتی پالیسیوں کے سخت ناقد سمجھے جاتے ہیں۔
  2. مشرقِ وسطیٰ: یہاں کے لیے ان شخصیات کو ترجیح دی جا رہی ہے جن کے خطے کے حکمرانوں کے ساتھ ذاتی اور کاروباری مراسم استوار ہیں۔

روایتی سفارت کاری بمقابلہ نئی سوچ

امریکی وزارتِ خارجہ کے پرانے اور تجربہ کار اہلکاروں نے ان تقرریوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سفارت کاری ایک پیچیدہ فن ہے جس کے لیے برسوں کی تربیت اور تجربہ درکار ہوتا ہے۔

عالمی سطح پر ممکنہ اثرات

دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں ان تقرریوں پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ کئی ممالک اس بات پر فکر مند ہیں کہ نئے سفیروں کے آنے سے برسوں سے چلی آ رہی پالیسیاں یکسر تبدیل ہو سکتی ہیں۔ بالخصوص تجارتی معاہدوں، موسمیاتی تبدیلیوں اور دفاعی اتحادوں کے حوالے سے امریکی رویے میں بڑی تبدیلی کی توقع کی جا رہی ہے۔

اختتامی کلمات

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سفیروں کا یہ انتخاب اس بات کا واضح پیغام ہے کہ ان کی دوسری مدتِ صدارت پہلی سے بھی زیادہ جارحانہ اور غیر روایتی ہوگی۔ وہ ایک ایسی ٹیم بنانا چاہتے ہیں جو کسی بھی دفتری مصلحت کا شکار ہوئے بغیر براہِ راست صدارتی وژن کو عالمی سطح پر آگے بڑھائے۔ آنے والے ہفتوں میں جب یہ نام منظوری کے لیے پارلیمنٹ (سینیٹ) کے سامنے پیش ہوں گے، تو وہاں بھی ایک سخت سیاسی مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔

Exit mobile version