وینزویلا: صدر نکولس مادورو کی حکومت نے امریکہ پر ایک ‘غیر اعلانیہ جنگ’ چھیڑنے کا الزام لگایا ہے اور اس کے جواب میں عوام کو فوجی تربیت دینے کا ایک بڑا اور غیر معمولی اقدام اٹھایا ہے۔ اس نئے اعلان کے مطابق، فوج اب پہلی مرتبہ عوام کے درمیان جائے گی، تاکہ وہ ہتھیاروں کے استعمال اور فوجی حکمت عملیوں کی تربیت حاصل کر سکیں۔ یہ فیصلہ امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ایک ممکنہ فوجی تصادم کے خدشات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
عوام کو فوجی تربیت کا آغاز
وینزویلا کے صدر مادورو نے اس ہفتے کے آخر میں ایک نئی قومی دفاعی حکمت عملی کے تحت بولیویرین نیشنل آرمڈ فورسز (FANB) کو حکم دیا ہے کہ وہ براہ راست شہروں اور غریب علاقوں (Barrios) میں جائیں اور وہاں کے مکینوں کو فوجی حربوں کی تربیت دیں۔ یہ ایک غیر معمولی اقدام ہے کیونکہ اس سے قبل فوج کی ایسی براہ راست عوامی شمولیت نہیں دیکھی گئی تھی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق، یہ اقدام ‘طویل فعال مزاحمت’ اور ‘مستقل جارحیت’ کے اصولوں پر مبنی ہے، جو کہ ایک طویل اور فعال جنگی صورتحال کے لیے وینزویلا کی تیاری کا حصہ ہے۔
مادورو کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ لاکھوں ‘جنگجو’ فوجی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم، تجزیہ کاروں کو اس تعداد پر شک ہے۔ اس اقدام کا مقصد نہ صرف عوام کو دفاعی طور پر تیار کرنا ہے، بلکہ وینزویلا کے عام شہریوں میں حکومت کے خلاف بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کو کم کرنا اور ‘چاویزم’ (Chavismo) کی تحریک کو زندہ کرنا بھی ہے۔ یہ وہ غریب علاقے ہیں جو تاریخی طور پر مرحوم صدر ہیوگو شاویز اور موجودہ صدر مادورو کی سیاسی حمایت کا مرکز رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں، ان علاقوں میں مہنگائی، خوراک کی کمی اور خوف کی وجہ سے حکومت کے خلاف ناراضی میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی
وینزویلا اور امریکہ کے درمیان تعلقات حالیہ دنوں میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ مادورو کی حکومت کا الزام ہے کہ امریکہ ایک ‘شاہی منصوبہ’ (Imperial Plan) کے تحت وینزویلا میں کٹھ پتلی حکومت مسلط کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کے وسیع قدرتی وسائل، خاص طور پر تیل پر قبضہ کر سکے۔ اس کے جواب میں، وینزویلا کی فوج اپنی تیاریوں کو بڑھا رہی ہے اور اب اس نے عوام کو بھی اس جنگی تیاری میں شامل کر لیا ہے۔
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکہ اپنی فوجی موجودگی کو کیریبین خطے میں بڑھا رہا ہے۔ امریکہ کی فوجی مشقیں اور وینزویلا کے قریب اس کی نقل و حرکت مادورو حکومت کو اس بات پر مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنے دفاعی اقدامات کو مزید مضبوط بنائے۔ ان حالات میں، وینزویلا کے اعلیٰ فوجی کمانڈ اور چاویستا قیادت نے عوام کی شمولیت کو قومی دفاع کی ایک اہم حکمت عملی کے طور پر اپنایا ہے۔
‘طویل فعال مزاحمت’ کی حکمت عملی
وینزویلا کے رجیم کے ایک اعلیٰ عہدیدار، ڈیوسڈاڈو کیبیلو، اس حکمت عملی کو فروغ دینے میں ذاتی طور پر شامل ہیں۔ وہ ٹیلی وژن پر فوجی تربیت کے سیشنز کی قیادت کر رہے ہیں اور انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے کسی بھی فوجی جارحیت کا فوری اور مسلح مقابلہ کیا جائے گا۔ ‘طویل فعال مزاحمت’ کی حکمت عملی کا مطلب یہ ہے کہ اگر وینزویلا پر حملہ ہوتا ہے تو ملک بھر میں شہریوں اور فوج کے مشترکہ تعاون سے ایک طویل اور مسلسل جنگ شروع ہو جائے گی، جس کا مقصد حملہ آور کو تھکا کر پسپا کرنا ہو گا۔
یہ حکمت عملی وینزویلا کے شہریوں پر ایک نیا بوجھ ڈالے گی۔ اگرچہ حکومت اس اقدام کو حب الوطنی اور دفاع کی تیاری کے طور پر پیش کر رہی ہے، لیکن حقیقت میں یہ عوام کو ایک ممکنہ جنگ کے غیر یقینی اور خطرناک ماحول میں دھکیل رہی ہے۔ پہلے ہی سے معاشی مشکلات سے دوچار عوام کو اب فوجی تربیت اور ممکنہ فوجی کارروائیوں کے لیے بھی تیار رہنا پڑے گا۔
مستقبل کے ممکنہ اثرات
وینزویلا کا یہ اقدام نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی اہم نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ اگرچہ مادورو کی حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ وہ اپنے ملک کی خود مختاری کا دفاع کر رہی ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک خطرناک کھیل ہے جو خطے میں مزید عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے امریکہ کے ساتھ کشیدگی مزید بڑھے گی اور وینزویلا ایک نئے بین الاقوامی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔
اس صورتحال میں یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ وینزویلا کے عوام اس فیصلے پر کس طرح ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ کیا وہ حکومت کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے یا وہ اس نئی فوجی پالیسی کے خلاف احتجاج کریں گے؟ اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہو گا۔
یہ خبر آپ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔ کیا آپ چاہیں گے کہ اس میں مزید معلومات شامل کی جائیں یا کسی اور موضوع پر بات کی جائے؟