کینیڈا: جدید دنیا کی رنگینیوں اور مشینوں کے شور سے دور، ایک شخص نے وہ کر دکھایا ہے جو بظاہر ناممکن نظر آتا تھا۔ اس باہمت انسان نے سمندر کی سطح پر اپنے ہاتھوں سے ایک ایسا “تیرتا ہوا گاؤں” تعمیر کیا ہے جو نہ صرف رہنے کے قابل ہے بلکہ اپنی تمام ضروریات میں مکمل طور پر خود کفیل بھی ہے۔
تنہائی میں بسا ایک شاہکار
اس شخص نے روایتی زندگی کو خیرباد کہہ کر سمندر کے ایک دور افتادہ گوشے کا انتخاب کیا جہاں نہ تو کوئی پڑوسی ہے اور نہ ہی شہروں کا شور و غل۔ اس تیرتے ہوئے جزیرے کو مکمل طور پر لکڑی اور قدرتی مواد سے تیار کیا گیا ہے، جس میں رہنے کے لیے کمرے، سبزیاں اگانے کے لیے باغات اور یہاں تک کہ گھومنے پھرنے کے لیے چھوٹی راہیں بھی موجود ہیں۔
جدید سہولیات کے بغیر زندگی
اس انوکھے گاؤں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں کوئی روایتی بجلی فراہم نہیں کی جاتی اور نہ ہی یہاں جدید مشینیں استعمال ہوتی ہیں۔
- توانائی کا حصول: بجلی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے شمسی توانائی (سولر پینلز) اور ہوا کے دباؤ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
- خوراک کی فراہمی: اس شخص نے تیرتے ہوئے تختوں پر چھوٹے چھوٹے باغات بنا رکھے ہیں جہاں وہ اپنی ضرورت کی تمام سبزیاں اور پھل خود اگاتا ہے۔ اس کے علاوہ تازہ مچھلی اس کی خوراک کا مستقل حصہ ہے۔
- پانی کا نظام: بارش کے پانی کو صاف کرنے اور اسے استعمال کے قابل بنانے کا ایک مخصوص اور سادہ نظام وضع کیا گیا ہے۔
تعمیراتی مہارت اور چیلنجز
بغیر کسی بڑی مشینری یا مدد کے، اس وسیع ڈھانچے کو سمندر کی لہروں پر مستحکم رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ اس شخص نے لکڑی کے تختوں اور تیرنے والے ڈرموں کے ذریعے ایک ایسا توازن پیدا کیا ہے کہ تیز لہروں اور طوفانی ہواؤں کے باوجود یہ گاؤں اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر چیز کی مرمت اور دیکھ بھال وہ خود کرتا ہے، جس میں کئی گھنٹوں کی مشقت درکار ہوتی ہے۔
تنہائی کا سکون
جب اس شخص سے پوچھا گیا کہ وہ اتنی بڑی دنیا میں تنہا کیوں رہتا ہے، تو اس کا جواب سادہ تھا: “میں فطرت کے قریب رہنا چاہتا تھا۔ یہاں کوئی معاشرتی دباؤ نہیں، کوئی بلوں کی فکر نہیں اور نہ ہی کوئی فضول شور ہے۔” اس کا ماننا ہے کہ انسان اگر چاہے تو فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اپنی ایک الگ اور پرسکون دنیا بسا سکتا ہے۔
عالمی سطح پر پذیرائی
اس کے اس انوکھے طرزِ زندگی کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں، جہاں لوگ اسے “جدید دور کا رابنسن کروسو” قرار دے رہے ہیں۔ ماہرینِ تعمیرات بھی اس سادہ مگر مضبوط ڈھانچے کی تعریف کر رہے ہیں جو کہ ماحولیاتی آلودگی سے پاک اور پائیدار زندگی کی ایک بہترین مثال ہے۔
اختتامی کلمات
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ خود اعتمادی اور محنت کے ذریعے انسان نامساعد حالات میں بھی اپنی بقا کا راستہ نکال سکتا ہے۔ یہ تیرتا ہوا گاؤں محض ایک گھر نہیں بلکہ اس عزم کی علامت ہے کہ جدید مشینری کے بغیر بھی ایک پروقار اور خود کفیل زندگی گزاری جا سکتی ہے۔

