لاہور/اسلام آباد (الجزیرہ/جیمنی نیوز) – پاکستان میں ایک بار پھر مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) حکومت کے کریک ڈاؤن کی زد میں ہے، جس کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں اور درجنوں کارکنان زخمی ہوئے ہیں۔ پنجاب حکومت کی جانب سے اس انتہا پسند مذہبی تنظیم پر پابندی لگانے کی کوششوں کی اطلاعات بھی ہیں، تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کریک ڈاؤن کے پیچھے صرف اس کے احتجاج کا طریقہ کار ہی نہیں، بلکہ اس کی بدلتی ہوئی سیاسی حکمتِ عملی بھی شامل ہے۔
کریک ڈاؤن کی فوری وجہ: فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کا مارچ
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، حالیہ کریک ڈاؤن کا محرک ٹی ایل پی کا ‘طوفان الاقصیٰ مارچ’ تھا، جس کا مقصد لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کرتے ہوئے فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی اور غزہ کی صورتحال پر احتجاج ریکارڈ کرانا تھا۔
ٹی ایل پی کے ایک ترجمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیرہ کو بتایا کہ مارچ کا مقصد صرف “مظلوم فلسطینیوں اور غزہ کی صورتحال کے ساتھ یکجہتی کا اظہار” کرنا تھا، لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مارچ کو لاہور کے نواحی علاقوں، بالخصوص مریدکے، کے قریب روکنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں شدید جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں میں ٹی ایل پی کے کارکنان اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی ہلاکتوں کی متضاد اطلاعات ہیں۔
ٹی ایل پی کی سیاسی فطرت اور حکمتِ عملی میں تبدیلی
تجزیہ کاروں کے مطابق، ٹی ایل پی اپنی بنیاد 2017ء میں توہین مذہب کے حساس موضوع پر پرتشدد احتجاجات کے ذریعے بنائی۔ پارٹی کی سیاست کی بنیادی جڑ توہینِ مذہب کے حوالے سے سخت مؤقف اور ممتاز قادری کی حمایت رہی ہے، جس نے پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو توہین مذہب سے متعلق ہمدردانہ خیالات رکھنے پر قتل کر دیا تھا۔
تاہم، موجودہ احتجاج (طوفان الاقصیٰ مارچ) میں ٹی ایل پی نے ایک مختلف نقطہ اپنایا، جو توہینِ مذہب کے بجائے فلسطینی کاز جیسے وسیع تر اسلامی مسئلے پر مرکوز تھا۔ ایک تجزیہ کار نے الجزیرہ کو بتایا کہ:
“تحریک لبیک کی فطرت میں ہمیشہ سے محاذ آرائی کی سیاست شامل رہی ہے، لیکن شاید اس احتجاج کے ذریعے اس نے دیگر مسائل پر بھی اپنی قسمت آزمائی کرنے کی کوشش کی۔ تحریک لبیک کے ڈی این اے کا حصہ احتجاج اور ہنگامہ آرائی ہے، اور اس نے توہین مذہب سے ہٹ کر سرگرمیاں انجام دینے کی کوشش کی ہے۔”
حکومت کی جانب سے پابندی کا خطرہ
پنجاب حکومت اس جماعت پر دوبارہ پابندی لگانے کا خطرہ مول لے رہی ہے۔ یاد رہے کہ ٹی ایل پی کو پہلے بھی اپریل 2021 میں انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت کالعدم قرار دیا جا چکا تھا، جب فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے پر ملک گیر پرتشدد احتجاج ہوئے تھے۔ بعد ازاں حکومتی مذاکرات کے بعد یہ پابندی ہٹا دی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق، پنجاب حکومت نے ان پرتشدد مظاہروں، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملوں، اور اقلیتی برادریوں کے خلاف حملوں کو بنیاد بنا کر اس تنظیم کو کالعدم قرار دینے کی تجویز دی ہے۔ اگرچہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کرتی ہے، لیکن وفاقی کابینہ نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت ابتدائی پابندی کی منظوری دی ہے اور مالیاتی تحقیقات بھی تیز کر دی گئی ہیں۔
اثرات
تشدد میں اضافہ: ٹی ایل پی کے ابھرنے کے بعد ملک میں تشدد اور توہین مذہب کے مقدمات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ جماعت خاص طور پر احمدی اقلیتی برادری کو نشانہ بناتی رہی ہے، جنہیں 1974 کے آئینی ترمیم کے تحت غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔
سیاسی دباؤ: ٹی ایل پی اپنے پرتشدد احتجاج کی وجہ سے حکومت پر مسلسل دباؤ ڈالتی رہی ہے، جس سے نہ صرف نظام زندگی مفلوج ہوتا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے۔
حالیہ کریک ڈاؤن ایک بار پھر پاکستان کی سیاسی اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک چیلنج ہے کہ وہ کس طرح ایک ایسی جماعت کے ساتھ نمٹے جو اپنی عوامی طاقت کو جارحانہ انداز میں استعمال کرتی ہے اور انتہائی حساس مذہبی معاملات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔