عالمی اقتصادی رپورٹ: ویژول کیپیٹلسٹ (Visual Capitalist) کی جانب سے 2025 کے لیے جاری کردہ ایک تازہ ترین نقشہ نما رپورٹ کے مطابق، دنیا کے محنتی ترین ممالک کی درجہ بندی سامنے آ گئی ہے، جس میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ایشیائی اور لاطینی امریکی ممالک کے کارکنان طویل گھنٹوں تک کام کرنے کے عالمی رجحان کی قیادت کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹ صرف پیداواری صلاحیت نہیں بلکہ کام کے اوسط سالانہ اوقات کو بنیاد بناتی ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کون سی قومیں اپنی معیشت کو چلانے کے لیے سب سے زیادہ جسمانی وقت صرف کرتی ہیں۔
عالمی محنت کا منظرنامہ: کون سب سے زیادہ کام کرتا ہے؟
اس مطالعہ میں یہ بات نمایاں ہوئی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے مزدور زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک کے کارکنوں کے مقابلے میں بہت زیادہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ معاشی ضروریات، کم خودکار نظام (Automation) اور کم سماجی تحفظ (Social Security) کا ہونا ہے۔
سرفہرست ممالک: سالانہ 2,200 سے زائد گھنٹے
رپورٹ کے مطابق، وہ ممالک جہاں کارکنان سالانہ اوسطاً 2,200 گھنٹے یا اس سے زیادہ کام کرتے ہیں، وہ سرفہرست ہیں۔ یہ ممالک زیادہ تر جنوب مشرقی ایشیا، مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
- سرفہرست ممالک: ان میں وہ ممالک شامل ہیں جہاں مزدوروں کے حقوق کمزور ہیں یا جہاں صنعتی شعبے میں شدید محنت کا رواج ہے۔ یہ ممالک اکثر عالمی سپلائی چین کے لیے پیداواری مراکز کا کام کرتے ہیں۔
پاکستان اور علاقائی ممالک کی صورتحال
اگرچہ پاکستان اس چارٹ کے سرفہرست گروپ میں شامل نہیں ہے، لیکن علاقائی سطح پر پاکستان اور اس کے پڑوسی ممالک میں بھی کام کے اوقات مغربی ممالک کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں۔
- ایشیا میں کام کا بوجھ: ایشیائی ممالک جیسے جنوبی کوریا، فلپائن، اور ویتنام میں اوسط سالانہ کام کے گھنٹے بہت زیادہ ہیں، جو ان ممالک میں تیز رفتار صنعتی ترقی اور مینوفیکچرنگ پر زور کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک: کام کے کم گھنٹے، زیادہ پیداواری صلاحیت
اس درجہ بندی میں ایک دلچسپ تضاد ترقی یافتہ ممالک کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔ مغربی یورپ اور اسکینڈینیوین ممالک کے کارکنان سالانہ اوسطاً 1,400 سے 1,700 گھنٹے کام کرتے ہیں۔
- یورپی ممالک (مثلاً جرمنی، فرانس): یہ ممالک کم کام کے گھنٹے کے باوجود بلند پیداواری صلاحیت (High Productivity) کے لیے جانے جاتے ہیں۔ یہاں کی پالیسیاں کام اور زندگی کے توازن (Work-Life Balance) اور ملازمین کی فلاح و بہبود پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔
- پیداواری صلاحیت کی اہمیت: رپورٹ اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ محنت کے زیادہ گھنٹے ہمیشہ زیادہ پیداواری صلاحیت کی ضمانت نہیں ہوتے۔ ٹیکنالوجی، بہتر انتظامیہ، اور کارکنوں کی فلاح و بہبود پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔
درجہ بندی کے پیچھے کی وجوہات
کام کے اوقات میں یہ عالمی فرق کئی اقتصادی اور سماجی عوامل کا نتیجہ ہے۔
- اقتصادی ضروریات: ترقی پذیر ممالک میں، بہت سے کارکنان کم اجرت پر گزارا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے اضافی شفٹیں اور اوور ٹائم کرنا پڑتا ہے۔
- لیبر یونینز کا کردار: ترقی یافتہ ممالک میں مضبوط لیبر یونینز اور سخت قوانین ہیں جو ہفتہ وار کام کے گھنٹوں کی حد مقرر کرتے ہیں اور اوور ٹائم پر بھاری ادائیگی کو یقینی بناتے ہیں۔
- خودکاری اور ٹیکنالوجی (Automation & Technology): وہ ممالک جہاں ٹیکنالوجی اور روبوٹکس کا استعمال زیادہ ہے، وہاں کام تیزی سے ہوتا ہے، جس سے انسانی مداخلت اور گھنٹوں کی ضرورت کم ہو جاتی ہے۔
- سماجی و ثقافتی عوامل: کچھ ایشیائی ثقافتوں میں طویل عرصے تک کام کو وفاداری اور اخلاقی فرض کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو کام کے اوقات کو غیر ضروری طور پر بڑھا دیتا ہے۔
رپورٹ کے مضمرات اور مستقبل کا رجحان
یہ رپورٹ عالمی سطح پر پالیسی سازوں اور مزدور رہنماؤں کے لیے گہرے مضمرات رکھتی ہے۔ یہ واضح کرتی ہے کہ سخت محنت اور مستقل ترقی کے درمیان ایک واضح فرق ہے۔
- بہتر پالیسی سازی: ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو صرف گھنٹے بڑھانے کے بجائے پیداواری صلاحیت (Efficiency) کو بڑھانے والی پالیسیوں پر توجہ دینی چاہیے۔ ان میں تعلیمی بہتری، ٹیکنالوجی کی اپنانا، اور کارکنوں کو ہنر مند بنانا شامل ہے۔
- چار روزہ ہفتہ کا بڑھتا رجحان: مغربی دنیا میں، کام کے چار روزہ ہفتے (Four-Day Work Week) کا تجربہ تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ اس کا مقصد کارکنوں کو زیادہ آرام دینا اور ان کی پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانا ہے۔ یہ مستقبل میں کام کے عالمی انداز کو بدل سکتا ہے۔
خلاصہ: ویژول کیپیٹلسٹ کی یہ درجہ بندی اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ دنیا دو مختلف اقتصادی راستوں پر چل رہی ہے: ایک راستہ طویل، تھکا دینے والی محنت کا ہے، اور دوسرا راستہ ہوشیار، مؤثر اور زندگی کے توازن پر مبنی محنت کا ہے۔ دنیا کے محنتی ترین ممالک میں شامل ہونا صرف فخر کا نہیں بلکہ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ وہاں کارکنوں کی فلاح و بہبود اور کام کے حالات کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت ہے۔

