اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کی جانب سے مانگی گئی ایک اور رعایت کو مسترد کر دیا ہے، جس کے بعد حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق، آئی ایم ایف نے پاکستان میں کنڈومز اور مانع حمل ادویات پر ٹیکس چھوٹ دینے کی درخواست کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
حکومتی درخواست اور آئی ایم ایف کا موقف
وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف سے مطالبہ کیا تھا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے اور خاندانی منصوبہ بندی کے فروغ کے لیے کنڈومز اور متعلقہ مصنوعات پر سے سیلز ٹیکس ختم یا کم کیا جائے۔
- حکومت کا موقف: حکومت کا کہنا تھا کہ ان مصنوعات پر ٹیکس کی وجہ سے قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں، جو کہ صحت عامہ اور آبادی کے توازن کے لیے نقصان دہ ہے۔
- آئی ایم ایف کا اعتراض: آئی ایم ایف نے اپنے سخت گیر موقف پر قائم رہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اپنے ریونیو کے اہداف پورے کرنے کے لیے کسی بھی شعبے میں بلا ضرورت ٹیکس چھوٹ (Tax Exemptions) دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ فنڈ کا ماننا ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے ہر قسم کی رعایتوں کو ختم کرنا ضروری ہے۔
اقتصادی اور سماجی اثرات
پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح پہلے ہی خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ ماہرینِ صحت نے آئی ایم ایف کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے:
- آبادی کا دباؤ: کنڈومز مہنگے ہونے سے غریب اور متوسط طبقے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی مشکل ہو جائے گی، جس سے آبادی کے دباؤ میں مزید اضافہ ہوگا۔
- صحت کے مسائل: مانع حمل ذرائع تک رسائی میں کمی سے نہ صرف غیر ارادی حمل کے واقعات بڑھ سکتے ہیں بلکہ جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں (STDs) کے پھیلاؤ کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
- حکومت کے لیے سیاسی دھچکا: سیاسی طور پر اس فیصلے کو حکومت کی ناکامی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ وہ ایک ایسی بنیادی ضرورت پر بھی عالمی ادارے کو قائل کرنے میں ناکام رہی جس کا براہِ راست تعلق عوامی صحت سے ہے۔
عالمی ادارے کی شرائط اور مستقبل کی صورتحال
آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے تحت سخت شرائط عائد کر رکھی ہیں۔ ان شرائط میں پیٹرولیم مصنوعات، بجلی، اور اب بنیادی صحت کی سہولیات پر بھی ٹیکسوں کا نفاذ شامل ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے مالیاتی نظم و ضبط (Fiscal Discipline) کے معاملے میں کوئی لچک دکھانے کو تیار نہیں ہے، چاہے وہ معاملہ انسانی ہمدردی یا صحتِ عامہ ہی سے کیوں نہ جڑا ہو۔
حکومت اب اس کوشش میں ہے کہ کسی متبادل طریقے سے ان مصنوعات پر سبسڈی فراہم کی جائے، تاہم موجودہ معاشی حالات میں خزانے پر مزید بوجھ ڈالنا ایک مشکل چیلنج نظر آتا ہے۔ اس صورتحال نے سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں بھی ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے جہاں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

