اسلام آباد (اردو نیوز) – اسلام آباد ہائی کورٹ نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی جانب سے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کو دور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ عدالت نے نوٹس جاری کرتے ہوئے اس کیس کی سماعت کے لیے 23 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے پیر کے روز وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی درخواست پر سماعت کی۔ سہیل آفریدی نے یہ درخواست 17 اکتوبر کو دائر کی تھی، جبکہ 15 اکتوبر کو حلف اٹھانے کے بعد وہ 16 اکتوبر کو ہی عمران خان سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل پہنچے تھے، لیکن انہیں ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
درخواست کی بنیاد اور قانونی تقاضے
وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ صوبائی کابینہ کی تشکیل سمیت دیگر اہم انتظامی اور سیاسی فیصلوں کے لیے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے مشاورت “قانونی اور اخلاقی طور پر ضروری” ہے۔
ان کے وکیل نے عدالت میں دلیل دی کہ چونکہ کابینہ ابھی تک تشکیل نہیں دی گئی ہے، لہٰذا اس مرحلے پر وزیراعلیٰ کا تنہا درخواست دائر کرنا درست ہے۔ یہ مؤقف اس اعتراض کے جواب میں دیا گیا تھا کہ وزیر اعلیٰ صوبائی کابینہ کے فیصلے کے بغیر کیسے درخواست دائر کر سکتے ہیں۔
رجسٹرار آفس کے اعتراضات
اس سے قبل، رجسٹرار آفس نے درخواست پر متعدد اعتراضات عائد کیے تھے۔ رجسٹرار آفس کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کے معاملات عدالت پہلے ہی سن چکی ہے اور بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے لیے ایک طریقہ کار (ایس او پی) طے کیا جا چکا ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت ملاقات کرنے والوں کی ہفتہ وار فہرست پی ٹی آئی کے آفس ہولڈرز تیار کرنے کے مجاز ہیں۔
تاہم، عدالت نے رجسٹرار آفس کے ان اعتراضات کو ہٹاتے ہوئے کیس کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کر لیا۔
جن فریقین کو نوٹس جاری کیے گئے
عدالت نے اس معاملے پر اپنا جواب طلب کرتے ہوئے درج ذیل فریقین کو نوٹس جاری کیے ہیں:
- سیکرٹری داخلہ (وفاقی)
- سیکرٹری محکمہ داخلہ پنجاب
- انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات پنجاب
- سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل
سیاسی پس منظر
وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے حلف اٹھانے کے فوراً بعد اعلان کیا تھا کہ وہ عمران خان سے مشاورت کے بعد ہی اپنی کابینہ کا اعلان کریں گے۔ جیل میں ملاقات کی اجازت نہ ملنے کے بعد، انہوں نے وفاقی اور صوبائی حکام سے باضابطہ درخواستیں بھی کی تھیں، لیکن جب کوئی جواب نہیں ملا تو انہوں نے ملاقات کی اجازت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ یہ سیاسی طور پر اہم معاملہ ہے کیونکہ صوبے کی حکومتی مشینری کا فیصلہ سازی کا عمل، اپنے پارٹی بانی کی مشاورت پر منحصر ہے۔