عالمی اور مقامی نمائندوں کے لیے آکسیجن کا کام دیتا ہے۔جھوٹ اور پروپیگنڈا
یہ فیصلہ کرنا کہ کون سا خطہ یا ملک کتنی ترقی کرے گا یا جنگ کرئے گا ، کس شہر میں کتنی ڈویلپمنٹ ھوگی ، کس ملک اور شہر کی گورنس بہتر ھوگی ، یہ کسی بادشاہ یا جمہوری و ڈکٹیٹر حکمرانوں کا کام نہیں ، بلکہ یہ فیصلے عالمی اداروں میں بیٹھے مافیاز کرتے ہیں ، کہ کس ملک میں آپریشن کرنے ہیں ، کس ملک کے عوام کو در بدر کرنا ھے ، کس ملک کی انتظامیہ اور حکومت کو لایعنی احتجاجوں میں الجھانا ھے ، کہاں پہ ڈرون پھینکنے ہیں ، کس ملک سے سرمایہ یا معدنیات وصول کرنی ہیں اور کہاں پہ وصول شدہ سرمایہ کاری کی رقوم(Investments) لگانی ہیں ،
مسلم وولڈ سمیت دنیا میں ہونے والے تمام اقسام کے “مکس نظام” دولت مشترکہ ، اقوام متحدہ ، اسلامی ممالک کی تنظیم ، عرب اسرائیل جنگ ، عراق ایران جنگ ، عرب لیگ ، 9/11 ، القاعدہ ، داعش ، دہشت گردی کے خلاف جہاد ، عرب سپرنگ ، جنگوں کے فلسفوں کو پڑھے لکھے جاھلوں کے معروف میڈیا چینلز(عالمی و مقامی)، نے دنیا کے مسلم علاقوں میں غلام قیادتوں کو وقتا فوقتا مظلوم مسلمانوں کیلئے آفاقی نجات دہندہ بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے ۔
یہ بیانیے معاہدے اور الائنس محض اتفاق نہیں، بلکہ سوچے سمجھے منصوبے ہیں ۔ مقصد بالکل واضح ہوتا ہے کہ اصل مسئلے سے توجہ ہٹانا، جیسے پاکستان کو مسلسل انتشار کا شکار رکھنا، ملک کو کمزور کرنا، ہر صورت افراتفری کو جاری رکھنا، اپنے مفادات کو نئے نئے شعبدے اور شور و شرابے میں دبانا، اور مسلمانوں کو تمام دنیاوی اسباب ہونے کے باوجود الجھنوں( تعلیمی و اخلاقی تنزلی، دہشت گردی، غربت سمیت سماجی فرقوں) میں مبتلا کرنا
امریکہ پر 36 ٹریلین ڈالرز کا قرض ہے۔
چین پر 15 ٹریلین ڈالرز ۔
جاپان پر 10 ٹریلین ڈالرز ۔
جرمنی پر 3 ٹریلین ڈالرز ۔
روس پر 3 ٹریلین ڈالرز۔
برطانیہ پر 3 ٹریلین ڈالرز ۔
فرانس پر 3.5 ٹریلین ڈالرز ۔
زمین پر تقریباً ہر بڑی چھوٹی ریاست قرض میں ڈوبی ہوئی ہے جبکہ مقبوضہ سامراجی ایمپائرز(Empires) براہ راست کنٹرولڈ ہیں۔
عالمی قرضہ مجموعی طور پر 317 ٹریلین ڈالر ہے۔
317 ٹریلین 🤔
یہ رقم عالمی جی ڈی پی کے تقریباً %330 فیصد کے برابر ہے۔
دنیا میں جتنی بھی سالانہ پیداوار ہوتی ہے، وہ کل قرض کے برابر بھی نہیں بنتی۔
اگر پوری 🌐 دنیا تین سال تک مسلسل کچھ بھی خرچ نہ کرے تو تب جا کر یہ قرض ادا ہو سکتا ہے۔
جوکہ ناممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ایک سوال ہے جو کوئی نہیں پوچھتا ؟؟؟؟؟؟؟
اگر سب مقروض ہیں تو قرض دینے والا کون ہے؟
اگر دنیا پر 317 ٹریلین ڈالرز(کاغذ) کا قرض ہے تو پھر 317 ٹریلین ڈالرز(کاغذ) کے اثاثے (سونا چاندی یورینیم پلوٹونیم) کس کے پاس ہیں؟
جب دنیا کے پاس 317 ٹریلین ڈالرز کی ذمہ داریاں ہیں تو وہ اثاثے کس نے رکھے ہوئے ہیں؟
قرض ایک صفر جمع صفر کا کھیل ہے۔
ہر قرض لینے والے کے مقابلے میں ایک قرض دینے والا ہوتا ہے۔
اگر امریکہ پر 36 ٹریلین ڈالرز کا قرض ہے تو کسی کے پاس امریکہ کے خلاف 36 ٹریلین ڈالرز کے دعوے موجود ہیں۔
اگر عالمی قرض 317 ٹریلین ڈالرز ہے تو کسی کے پاس 317 ٹریلین ڈالرز کے عالمی اثاثے (سونا چاندی معدنیات تیل اور منرلز) ضرور ہیں ؟؟؟؟؟؟۔
وہ کون ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟
اس سوال کا جواب انسانی تاریخ کے سب سے بڑے “دولت کے ارتکاز ” کے نظام کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ نہ جنگ کے ذریعے ہوتا ہے، نہ چوری سے، نہ جمہوریت سے نہ بادشاہت سے اور نہ ہی کسی قسم کے انقلاب سے
بلکہ ایک ایسے نظام کے ذریعے جہاں اکثریت قرض لیتی ہے اور اقلیت قرض دیتی ہے،
جہاں سود(ٹیکس) ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے،
اور جہاں قرض ریاضیاتی طور پر کبھی مکمل ادا نہیں ہو سکتا،
لہٰذا وہ مسلسل بڑھتا رہتا ہے اور دولت کو اوپر کی طرف منتقل کرتا رہتا ہے۔
یہاں سمجھیں کہ اصل میں 317 ٹریلین ڈالرز کا عالمی قرض کس کے پاس ہے،
یہ نظام کیسے قرض تو پیدا کرتا ہے مگر اسے ادا کرنے کے لیے پیسہ پیدا نہیں کرتا،
یہ حادثہ نہیں بلکہ دانستہ ڈیزائن کیا گیا ہے،
کون سے مخصوص ادارے اور افراد دائمی قرض سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں،
اور یہ نظام آخرکار کیوں لازماً ٹوٹے گا۔
اس کو سمجھنا صرف معاشیات کا معاملہ نہیں ہے،
بلکہ یہ دیکھنے کا معاملہ ہے کہ عالمی ” قرض کا نظام ” کس طرح دولت کو چند ہاتھوں میں سمیٹتا ہے، اور اس ارتکاز کو قدرتی اور ناگزیر بنا کر پیش کرتا ہے۔
لیکن اس سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ جدید ڈیجیٹل نظام میں قرض اصل میں ہوتا کیا ہے۔
زیادہ تر دانشور پڑھے لکھے لوگ سمجھتے ہیں کہ قرض ذاتی ادھار کی طرح کام کرتا ہے۔
آپ بینک سے 10 ہزار ڈالرز لیتے ہیں۔
بینک کے پاس پہلے سے 10 ہزار ڈالرز ہوتے ہیں جو وہ آپ کو دے دیتا ہے۔
جب آپ واپس کرتے ہیں تو بینک کو اس کے 10 ہزار ڈالر اور اس پر سود(ٹیکس) مل جاتا ہے۔
جدید مالی نظام (ڈیجیٹل کالونائزیشن) اس طرح کام نہیں کرتا۔
جب کوئی حکومت بینک سے 10 ہزار ڈالرز قرض لیتی ہے تو بینک کو اصل رقم اور سود واپس ملتا ہے،
لیکن جب کوئی بھی ” نظام حکومت ” بانڈز جاری کر کے قرض لیتی ہے تو پیسہ(ڈالرز) پہلے سے موجود نہیں ہوتا۔
کیونکہ قرض لینے کا عمل ہی پیسہ پیدا کرتا ہے۔
دولت مشترکہ کے کلب ممبران آئی ایم ایف یا اقوام متحدہ کے فریم ورک کے تحت، مرکزی بینک یا کمرشل بینک دنیا میں کسی بھی قسم کے نظام حکومت کے بانڈز خریدتے ہیں
اور یہ رقم محض کھاتوں میں اندراج کے ذریعے، یعنی ہوا (خلا) سے، پیدا کی جاتی ہے۔
جیسے امریکی حکومت کو ایک ٹریلین ڈالرز چاہئیں۔
وہ ٹریژری بانڈز جاری کرتی ہے۔
فیڈرل ریزرو اعلان کرتا ہے کہ وہ 500 ارب ڈالرز کے بانڈز خریدے گا۔
کمرشل بینک باقی 500 ارب ڈالرز کے بانڈز خریدتے ہیں۔
فیڈرل ریزرو کو یہ 500 ارب ڈالرز کہاں سے ملتے ہیں؟
یہ اس کے پاس ہوتے ہی نہیں۔
وہ کمپیوٹر میں نمبر ٹائپ کر کے یہ پیسہ بنا لیتا ہے۔
فیڈرل ریزرو کے بیلنس شیٹ میں 500 ارب ڈالرز کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
لیکن صرف اصل رقم پیدا کی جاتی ہے۔
سود پیدا نہیں کیا جاتا۔
اگر حکومت ایک ٹریلین ڈالرز %5 فیصد سود پر قرض لیتی ہے
تو اسے ایک ٹریلین کے علاوہ ہر سال 50 ارب ڈالرز سود بھی دینا ہوگا۔
لیکن نظام میں صرف ایک ٹریلین ڈالرز پیدا ہوئے تھے۔
یہ 50 ارب ڈالرز کہاں سے آئیں گے؟
یا تو مستقبل میں مزید قرض لے کر،
یا پھر موجودہ رقم پر ٹیکس(سود) لگا کر۔
یہ ایک ریاضیاتی(Mathematics) جال 💱 ہے۔
کل قرض ہمیشہ کل رقم سے زیادہ ہوتا ہے۔۔۔۔
کیونکہ قرض پر سود واجب الادا ہوتا ہے مگر وہ رقم کبھی پیدا ہی نہیں کی جاتی۔
اس نظام کو زندہ رہنے کے لیے مسلسل نئے قرض کی ضرورت ہوتی رہتی ہے
تاکہ پرانے قرضوں کا سود(ٹیکس) ادا ہوتا رہے۔
کیا یہ خرابی اس کا ڈیزائن ہے؟؟
اب دیکھتے ہیں کہ سرمایہ(سونا چاندی) آخرکار کس کے پاس ہے۔
جواب چار بڑی اقسام میں ہے۔
پہلی قسم : مرکزی بینک۔
دوسری قسم : ادارہ جاتی سرمایہ کار۔
تیسری قسم : مقامی کنٹرول حکومتیں۔
چوتھی قسم : انتہائی امیر افراد۔
پہلی قسم: مرکزی بینک۔
فیڈرل ریزرو کے پاس تقریباً 5 ٹریلین ڈالر کا امریکی حکومتی قرض ہے۔
بینک آف جاپان کے پاس تقریباً 5 ٹریلین ڈالر کا جاپانی قرض ہے۔
یورپی مرکزی بینک کے پاس تقریباً 5 ٹریلین ڈالر کا یورپی قرض ہے۔
پیپلز بینک آف چائنا کے پاس تقریباً 3 ٹریلین ڈالر ہیں۔
گوگل کے مطابق دنیا بھر کے مرکزی بینک مجموعی طور پر تقریباً 25 ٹریلین ڈالر کے حکومتی بانڈ رکھتے ہیں۔
یہ کل 317 ٹریلین ڈالر کے قرض کا تقریباً % 8 فیصد بنتا ہے۔
لیکن یہی بنیاد ہے،
کیونکہ مرکزی بینک حکومتوں کو ٹیکس سے زیادہ خرچ کرنے کے قابل بناتے ہیں
بانڈز خرید کر اثاثے بیچ کر اور پیسہ پیدا کر کے( جیسے آئی پی پی IPP)۔
اب سوال یہ ہے کہ مرکزی بینکوں کا مالک کون ہے؟
فیڈرل ریزرو بینک کسی بھی قسم کے نظام حکومت کی ملکیت نہیں ہیں ۔
یہ ایک نجی ادارہ ہے جس کی ملکیت اس کے رکن کمرشل بینکوں کے پاس ہے۔
امریکہ کے 12 علاقائی فیڈرل ریزرو بینک ہیں جو
اپنے رکن بینکوں کو حصص جاری کرتے ہیں۔
جے پی مورگن چیس، بینک آف امریکہ، سٹی بینک،ویلز فارگو
فیڈرل ریزرو کے ان حصص پر سالانہ % 6 فیصد منافع وصول کرتے ہیں۔
جب فیڈرل ریزرو 5 ٹریلین ڈالرز کے حکومتی بانڈز رکھتا ہے
اور ان پر سود(ہر قسم کا ٹیکس) وصول کرتا ہے،
تو یہ سود والے ٹیکس بالآخر انہی نجی بینکوں تک پہنچتا ہے، جو فیڈرل ریزرو کے مالک ہیں۔
پڑھی لکھی سمجھدار دانشور عوام (چاہے مسلم ہوں یا غیرمسلم) یہی سمجھتی رہتی ہیں کہ فیڈرل ریزرو حکومتوں کا حصہ ہیں ۔
ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
یہ 1913ء میں بنایا گیا ایک نجی(پرائیویٹ) بینکاری نظام ہے
تاکہ نجی بینک حکومتی قرضوں سے منافع(ٹیکس کمیشن سود) کما سکیں۔
پہلا ” بینک آف انگلینڈ “، جو 1694ء میں قائم ہوا تھا۔

