نیو یارک، 5 نومبر 2025 – نیو یارک سٹی کے میئر کے انتخابات میں ظہران ممدانی کی تاریخی فتح کے بعد، شہر کی سیاسی توجہ اب ان کی اہلیہ، راما دواجی (Rama Dawaji) کی طرف مبذول ہو چکی ہے۔ راما دواجی نہ صرف میئر کی اہلیہ کے طور پر شہر کی “خاتون اول” بنیں گی، بلکہ وہ خود بھی امریکہ میں ترقی پسند تحریک اور ممدانی کی انتخابی مہم کی ایک خاموش مگر نہایت مؤثر قوت سمجھی جاتی ہیں۔
پس منظر اور تعلیم: رچمنڈ سے نیو یارک تک
راما دواجی نے ریاست ورجینیا میں اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ انہوں نے ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی (VCU) سے گریجویشن کیا، جو ان کے تعلیمی اور نظریاتی پس منظر کی تشکیل میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ VCU میں ان کی تعلیم نے انہیں سماجی انصاف، شہری منصوبہ بندی، اور کمیونٹی کی فعال شمولیت جیسے معاملات پر گہری بصیرت فراہم کی۔
اگرچہ راما زیادہ تر میڈیا کی چکا چوند سے دور رہتی ہیں، لیکن ان کا پس منظر اور سیاسی وابستگی ان کے شوہر ظہران ممدانی کے ترقی پسند ایجنڈے کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ وہ ایک نسل ‘زی’ (Gen Z) کی نمائندگی کرتی ہیں اور عوامی زندگی میں آنے والے نوجوانوں اور مختلف کمیونٹیز کی طاقت کا مظہر ہیں۔
میئر کی مہم میں کلیدی کردار
ظہران ممدانی کی حیرت انگیز کامیابی میں راما دواجی نے پس پردہ رہ کر ایک کلیدی اور فعال کردار ادا کیا۔
- نظریاتی حمایت: راما دواجی نے اپنے شوہر کے ڈیموکریٹک سوشلسٹ نظریات کو مضبوطی فراہم کی، جو شہر میں کرائے کے استحکام، مفت ٹرانسپورٹ، اور مہنگائی کو کم کرنے پر مبنی تھے۔ ان کا فہم تھا کہ یہ ایجنڈا نیو یارک کے نوجوان اور محنت کش طبقے کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
- پشت پناہی اور رہنمائی: مہم کے دوران، راما ممدانی کے ساتھ عوامی اجتماعات اور ریلیاں میں شریک رہیں، لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنی توجہ مہم کی اندرونی حکمت عملی اور تنظیمی ڈھانچے پر مرکوز رکھی۔ وہ ممدانی کے لیے نہ صرف جذباتی پشت پناہ تھیں بلکہ ایک قابل اعتماد مشیر بھی۔
- نوجوان ووٹرز کی نمائندگی: صرف 28 سال کی عمر میں، راما دواجی نئی نسل کے ووٹرز کو متحرک کرنے اور انہیں سیاست میں شامل کرنے میں ایک اہم پل کا کردار ادا کرتی رہیں۔ ممدانی کی جیت میں نوجوان ووٹروں کا ریکارڈ ٹرن آؤٹ ان کی اس کوشش کا ہی نتیجہ تھا۔
نیو یارک کی سب سے کم عمر ‘خاتون اول’
راما دواجی نیو یارک سٹی کی جدید تاریخ میں سب سے کم عمر خاتون اول ہوں گی۔ ان کی عمر میئر ممدانی سے بھی چھوٹی ہے۔ یہ حقیقت نیو یارک کے شہری منظرنامے میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، جہاں برسوں سے سیاست پر بزرگ اور روایتی شخصیات کا غلبہ رہا ہے۔
ان کا یہ عہدہ شہر کے نوجوانوں اور نئی نسل کے لیے ایک متاثر کن مثال قائم کرے گا۔ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم کو خاص طور پر نوجوانوں کے مسائل، تعلیم، اور شہر کے پائیدار ترقیاتی منصوبوں کو فروغ دینے کے لیے استعمال کریں گی۔ ان کے شوہر ظہران ممدانی نے بھی اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا کہ نیو یارک اب “ایک تارک وطن کی قیادت میں چلنے والا شہر” ہوگا، اور راما دواجی کا پس منظر بھی اسی کثیر الثقافتی روایت کی عکاسی کرتا ہے۔
عوامی کردار پر توقعات
اگرچہ سابق گورنر انڈریو کومو کی شکست کے بعد میئر کے دفتر میں بہت سے چیلنجز منتظر ہیں (جن میں وفاقی حکومت کی طرف سے ممکنہ فنڈز میں کٹوتی کی دھمکیاں شامل ہیں)، راما دواجی نے اپنے پرسکون اور مضبوط کردار کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ وہ اس نئے دور کے دباؤ کو سنبھالنے کے لیے تیار ہیں۔
راما دواجی نے انتخابی فتح کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ سٹی ہال کے اسٹیشن پر اترنے کی علامتی ویڈیو بھی شیئر کی تھی، جس میں ٹرین کے اعلان کو میئر کے عہدے پر ان کی آمد سے تشبیہ دی گئی تھی: “اگلا اور آخری اسٹاپ سٹی ہال ہے۔”
راما دواجی نیو یارک کی خاتون اول کے طور پر ایک ایسا نقش قدم چھوڑنے کے لیے تیار ہیں جو نہ صرف سیاسی طور پر بیدار ہوگا بلکہ نئے، ترقی پسند اور مختلف کمیونٹیز کے نیو یارک کی بھرپور نمائندگی بھی کرے گا۔

