75 years struggle of self determination

حافظ بلال بشیر

کشمیر، قدرت کے حسین نظاروں سے سجا ایک ایسا خطّہ ہے، جسے زمین پر جنّت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ برف پوش پہاڑ، سرسبز و شاداب وادیاں، بل کھاتی ندیاں، شفّاف جھیلیں اور دِل کش آب شاریں اس کی خُوب صُورتی کو چار چاند لگاتی ہیں۔ خطّۂ کشمیر نہ صرف اپنی فطری دِل کشی کے باعث دُنیا بَھر میں مشہور ہے، بلکہ یہاں کی ثقافت، مہمان نوازی اور زرخیز زمین بھی اسے دُنیا بَھر میں منفرد بناتی ہے۔

نیز، یہ خطّہ تاریخی، جغرافیائی اور سیاسی لحاظ سے بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ قراقرم اور پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع یہ خطّہ اپنے دل موہ لینے والے باغات اور جھیلوں کے سبب دُنیا بَھر میں مشہور ہے۔ کشمیر کو ریاست جمّوں و کشمیر بھی کہا جاتا ہے، جو قیامِ پاکستان سے قبل ایک خُود مختار ریاست تھی۔

تقسیمِ ہند کے وقت کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہاں تھی، لیکن مہاراجا ہری سنگھ کی ہٹ دھرمی، لالچ اور بھارت کی مداخلت نے اِسے ایک متنازع علاقہ بنا دیا اور آج کشمیر تین حصّوں میں منقسم ہے، مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان۔ مقبوضہ کشمیر بھارت کے قبضے میں ہے، جب کہ آزاد کشمیر اورگلگت بلتستان پاکستان کے زیرِ انتظام ہیں۔ کشمیر کی سرزمین ایشیا کے اہم دریاؤں کا منبع بھی ہے، جو پاکستان کی زراعت اور معیشت کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔

ریاست جمّوں و کشمیر کا کُل رقبہ 84,471مربّع میل ہے، جس میں شامل وادیٔ کشمیر 8,500 مربّع میل پر محیط ہے۔ اس علاقے کا موسم خوش گوار ہونے کے سبب سیّاح یہاں کِھنچے چلے آتے ہیں۔ کشمیر مختلف ادوار میں مسلمانوں، ہندوئوں اور سِکّھوں کےزیرِتسلّط رہا ہے، جب کہ آزاد اور مقبوضہ کشمیر کو لائن آف کنٹرول کے ذریعے ایک دوسرے سے الگ کیا گیا ہے۔

کشمیر پر بھارت کےقبضے کے بعد اقوامِ متّحدہ نے کشمیری عوام کو حقِ خود ارادیت دینے کی قرارداد منظور کی، لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث یہ مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔ تب ہی کشمیری عوام سے اظہارِ یک جہتی کے لیے ہر سال 5 فروری کو پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں ’’یومِ یک جہتیٔ کشمیر‘‘ پورے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اوریہ دن منانے کا مقصد دُنیا کو یہ پیغام دینا ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم مقبوضہ کشمیر کے عوام کی، حقِ خودارادیت کے لیے جدوجہد میں اُن کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

نیز، یہ دن اُس تاریخی قرارداد کی یاد بھی تازہ کرتا ہے کہ جو اقوامِ متّحدہ کی سلامتی کائونسل نے 5جنوری 1949ء کو منظور کی تھی، جس میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کو آزادانہ ریفرنڈم کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا تھا، لیکن آج 75 برس بعد بھی کشمیری باشندے اپنے اس بنیادی حق سے محروم ہیں اور مسلسل اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔

اِس وقت مقبوضہ کشمیر کے عوام انسانیت سوز بھارتی مظالم اورانسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔ قابض بھارتی فوج نے کشمیریوں کی آواز دبانےکے لیے پیلٹ گنز کے ذریعے کئی معصوم بچّوں کی بینائی تک چھین لی۔ اَن گنت خواتین کی عِصمت دری کی، تو لاکھوں افراد کو شہید کردیا گیا۔ نیز، 5 اگست 2019ء کو بھارتی حکومت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35- اے ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کردی، جس کے بعد کشمیری عوام پر ظلم و جبر کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔

بھارت نے مقبوضہ وادی کو دُنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کردیا ہے، جہاں شہریوں کواُن کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے، جب کہ لاکھوں غیر کشمیری ہندوؤں کووہاں آبادکرکے مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا تناسب بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے 10جنوری 2025ء تک لاکھوں ڈومیسائلز غیر کشمیری ہندوؤں کو دیے جا چُکے ہیں، جو اقوامِ متّحدہ کی قراردادوں، بھارتی آئین اور جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔

بھارت نے مختلف قوانین کے ذریعے مقبوضہ وادی میں غیرکشمیریوں کو آباد کرنے کے چار اہم منصوبے شروع کیے، جن میں سابق فوجیوں اور ہندوپنڈتوں کےلیے کالونیز کا قیام، پاکستانی ہندوؤں کو کشمیر کی شہریت دینا اور امرناتھ مندر کے نام پر زمین الاٹ کرنا قابلِ ذکر ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کی شناخت مٹانےاور اکثریت کو اقلیت میں بدلنےکے لیے بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں کرفیو اور لاک ڈاؤن کا نفاذ عام ہے۔

اس دوران گھروں پر چھاپے مار کر کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور پھر اُنہیں جعلی مقابلوں میں شہید کردیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، قابض بھارتی افواج کی جانب سے بے گناہ شہریوں پر تشدّد، خواتین کی عِصمت دری اور معمّر افراد سے تضحیک آمیز سلوک کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مزید برآں، کشمیری حریّت پسند رہنماؤں کو مَن گھڑت الزامات پر قید کرکے سخت سزائیں دی جاتی ہیں، جن کے نتیجے میں اب تک کئی کشمیری رہنما دورانِ حراست شہید ہوچُکے ہیں۔

دوسری جانب مسئلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں عالمی برادری کا کردار خاصا مایوس کُن رہا ہے۔ اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہےکہ اقوامِ متّحدہ اوردیگرعالمی ادارے مقبوضہ کشمیر سے متعلق اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے اور مغربی طاقتوں نے بھی اپنے معاشی مفادات کے پیشِ نظر بھارت پر دباؤ ڈالنے سے گریزکیا۔ اِسی طرح انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی مظلوم کشمیریوں کی مؤثر نمائندگی کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

تاہم، تمام تر بھارتی مظالم اور عالمی برادری کی بے حِسی کےباوجود مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنے لہو سے آزادی کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں اوراِس ضمن میں اُنہیں پاکستان کی بھرپور سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت حاصل ہے، جب کہ 5 فروری کو یومِ یک جہتیٔ کشمیر منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ دُنیا کو یہ باور کروایا جائے کہ پاکستانی عوام اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اِس روز انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کراور ریلیوں، جلسوں اور سیمینارز کے ذریعے کشمیری عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کی جاتی ہے۔ بےشک، کشمیری عوام کی قربانیاں ایک دن ضرور رنگ لائیں گی۔ تاہم، یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ کیا5 فروری کو کشمیری عوام سے اظہار یک جہتی کے علاوہ اس ضمن میں ہم پر جو مزید ذمّے داریاں عائد ہوتی ہیں، ہم اُن سے بھی عہدہ برآ ہونے کے لیے آمادہ ہیں یا نہیں؟

سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات