دارالعلوم دیوبند جب قائم ہوا تو وہ ایک مکتب نہیں تھا، ایک مدرسہ نہیں تھا، درس نظامی کا ایک قدامت پرستانہ سینٹر نہیں تھا۔ بلکہ وہ ایک انقلاب تھا ، ایک آندھی تھی، ایک طوفان تھا جو اگرایک طرف صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے باطل کے لئے ایک طوفان بلاخیز ثابت ہوا تو دوسری طرف مسلمانوں کی علمی، دینی اور سیاسی ترقی اور استحکام کے لئے ایک مہمہیز ثابت ہوا۔
ہندوستان اور پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان اور مغربی ممالک جیسے برطانیہ، فرانس ، جرمنی ، جنوبی افریقہ، امریکہ اور آسٹریلیا میں جو آپ کو دینی بیداری، علوم اسلامیہ کی روشنی اور باطل کے ساتھ نبردآزمائی کی مساعی نظر آرہی ہیں ان سب کا کہیں نہ کہیں رشتہ اسی دارالعلوم دیوبند سے جڑتا ہے جس کوآج بعض لوگ قدامت پرستی کا اڈہ کہ کر اس کی اہمیت اور عظمت پر حرف لگانا چاہتے ہیں۔
تاریخ اٹھا کر دیکھیں۔ ہندوستان میں تعلیمی انقلاب کس نے برپا کیا۔ اگر ایک طرف سر سید احمد خان تھے تو دوسری طرف مولانا محمد قاسم نانوتوی ۔ میرے نذدیک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے عصری تعلیم بلاشبہ بیش قیمت خدمت انجامد دی، گر وہ تو اپنے احاطہ میں محصور ہو کر رہ گیا مگر دارالعلوم دیوبند ایک فکرتھی، ایک نظریہ تھا، ایک مشن تھا جو صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیل گیا۔ دارالعلوم دیوبند نے مسلمانوں پر جو اثرات مرتب کئے اس کو کوئی بھی انصاف پرور مورخ نظر انداز نہیں کرسکتا۔
مظاہر العلوم کو قائم کرنے والے قاسمی تھے،وہ دارالعلوم ندوہ العلماء جس کا چہار دانگ عالم چرچا ہے اس کے بانیوں لی لسٹ اٹھا کر دیکھ لیجئے ۔ بیشتردارالعلوم دیوبند کے فارغین تھے، مدرسہ امینیہ، جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی ، جامعہ اسلامیہ ڈابھیل ، جامعہ اشرفیہ اور الجامعہ الاہلیہ دارالعلوم معین الاسلام یہ سب قاسمیوں کی محنت ومشقت کا نتیجہ ہیں۔ یہ تو صرف چند بڑے مدارس ہیں مگر ان لاکھوں مدارس کا کیا؟ جو پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں اور جن کی تعلیمی سرگرمیاں ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔ علی گڑھ اب تک صرف دو چیپٹر بنا سکا ایک کیرلا اور دوسرے بہار میں ، مگرہند، پاکستان اور بنگلہ دیشن کے ہر ضلع میں دارالعلوم دیوبند کا چیپٹر کھلا ہوا ہے ،
این سعادت به زور بازو نیست تاکه نه بخشد خدای بخشاینده
پاکستان پر نظر ڈالئے ، دارالعلوم کراچی، جامعہ العلوم الاسلامیہ، دارالعلوم بر، مدرسہ انعامیہ اور نہ جانے کتنے ایسے مدارس ہیں جو پاکستان کی سرزمین میں دینی علوم کی روشنی پھیلانے میں مصروف ہیں۔
دوسر ی طرف تبلیغی جماعت ہے جو دارالعلوم دیوبند ہی کے فضلاء اور قاسمی حضرات ہی کے فیض کا نتیجہ ہے۔ اگر ایک طرف ہر روز کروڑوں لوگ سڑک اور گلیوں میں اللہ کے دین کو پھیلانے کے لئے گھوم رہے ہیں تو دوسری طرف دلی بنگلہ والی مسجد، پاکستان میں رائے ونڈ مرکز، بھوپال میں تاج المساجد، کاکریکل مسجد، جامع مسجد نیرول، اور مرکز نظام الدین کی دعوتی خدمات دارالعلوم دیوبند کا کرشمہ نہیں تو کیا ہمار ا اور آپ کا کرشمہ ہے؟
تیسری طرف نظر ڈالیں۔ ہندوستان اور پاکستان کی بیشتر تنظمیں اسی دارالعلوم دیوبند کے چشمہ فیض کی چند چھینٹیں ہیں ۔ ہندوستان کا مسلم پرسنل لاء بورڈ، تحریک اسلامی طالبان، جمیعت علماء ہند، جمعیت علماء اسلام، اسلامک فقہ اکیڈمی وغیرہ کو قائم کرنے والے اور چلانےوالے قاسمی نہیں تو اور کون ہیں؟
اس طرح برطانیہ، امریکہ، فرانس، بلجئیم، جرمنی ، آسٹریلیا وغیرہ ممالک میں جو بڑے ادارے نظر آتے ہیں ان کو قائم کرنے والے یا چلانے والوں کے سلسلہ کی تحقیق کریں گے تو معلوم ہوگا کہ کہیں نہ کہیں ان کا رشتہ مولانا محمد قاسم نانوتوی کے اسی مدرسہ سے جا ملتا ہے جس کے فیض کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
مختصر یہ کہ دارالعلوم دیوبند نے ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں جو گہرے دینی ، سماجی، سیاسی اور اسلامی اثرات مرتب کیئے ہیں اس کی مثال تاریخ میں بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں دارالعلوم سے محبت کرتا ہوں!
(نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب)