حکومت خیبرپختونخوا، محکمہ داخلہ و قبائلی اُمور مشترکہ اعلامیہ ایپکس کمیٹی دوئمایپکس کمیٹی کی نشست کا بنیادی مقصد حکومت خیبر پختونخوا اور دیگر اداروں بشمول پاک فوج اور پولیس کی دہشتگردی کے خاتمے اور صوبے میں امن قائم کرنے کی مشترکہ کوششوں کا احاطہ کرنا ہے۔ صوبے میں امن و امان کے قیام اور دہشتگردی کے خاتمے کیلئے، حالات اور واقعات کے پس منظر میں وزیراعلیٰ نے ایک جامع پالیسی پر کام کی ہدایات جاری کی ہوئی ہیں۔ اس پالیسی کی سفارشات ایپکس کمیٹی میں پیش کی جارہی ہیں۔ اس دوران بنوں میں دو ناخوشگوار واقعات پیش آئے جس کے بعد مقامی مشران نے انتظامیہ اور اداروں کے ساتھ بات چیت اور تعاون کرتے ہوئے حالات کو سدھارنے میں مدد کی جو کہ قابل قدر ہے۔ حکومت اور تمام اداروں کی یہ سعی ہے کہ خیبر پختونخوا میں دیرپا امن اور خوشحالی ہو جس مقصد کےلئے وزیراعلیٰ، سول، پولیس وعسکری اداروں کے نمائندگان آج اکھٹے ہوئے۔ انہی مقاصد کیلئے مندرجہ ذیل فیصلوں کی توثیق کی گئی۔(۱) دہشتگرد ہر روپ میں قابل مذمت ہیں اور ان کے خلاف بلا تفریق کاروائی کی جائے گی۔ اس سلسلے میں پولیس کو وزیراعلیٰ نے احکامات دئیے ہیں کہ اگر کوئی بھی مسلح غیر سرکاری شخص پایا گیا تو اسے گرفتار کر کے اس کے خلاف بھر پور قانونی کاروائی کی جائے گی۔ مزید براں، کسی بھی غیر سرکاری مسلح گروہ کے دفاتر، اڈے یا چیکنگ غیر قانونی ہے اور ان کے خلاف پولیس بلا تفریق ایکشن لے گی۔ یہ امر تمام صوبے کیلئے ہے۔ (۲) آپریشن کے متعلق عسکری اداروں نے واضح بتا دیا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں اس لئے صوبے میں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا۔ مقامی طور پر دہشتگرد عناصر کے خلاف کاروائی پولیس اور سی ٹی ڈی کرے گی جس مقصد کیلئے ان کی استعداد بشمول نفری، گاڑیاں، بکتر بند، آتشیں ہتھیار بڑھائی جارہی ہے۔ البتہ کچھ علاقوں کی نوعیت، جغرافیہ اور بارڈر سے نزدیکی ایسی ہے کہ افواج پاکستان کی مدد کے بغیر کاروائی ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں حالات کے مطابق کاروائی کی جائے گی تاوقتہ کہ CTD اور دیگر اداروں کی استعداد اس قابل ہوسکے۔ (۳) پولیس کو ہدایت جاری کر دی گئی ہے کہ فوری طور پر باقاعدہ اور ہمہ وقت گشت کو یقینی بنائے اور موجودہ نفری اور گاڑیوں کے تمام صوبہ بشمول جنوبی اضلاع کو ترجیحی بنیادوں پر اضافی مدد فراہم کرے۔ نئی آسامیوں کی تخلیق میں بھی ان تمام علاقوں کو ترجیح دی جارہی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ (۴) مشکوک علاقہ جات و مدارس پر کاروائی CTD کی ذمہ داری ہے اور یہ کاروائی CTD کرے گی۔ (۵) چونکہ سرحدی قبائلی اضلاع کے عوام مقامی قبائل کے ساتھ تجارت پر انحصار کرتے ہیں جس کےلئے مختلف سرحدوں پر نقل و حرکت ہوتی رہی ہے۔ جیسے کہ طورخم، خرلاچی، انگوراڈہ۔ اسی طرح غلام خان اور باجوڑ و مہمند کے روایتی بارڈرز پر بھی تجارت کی اجازت دی جائے ( اس سلسلے میں کیس وفاقی حکومت کے پاس پہلے سے پیش ہے)۔ اس سے مقامی روزگار ملے گا اور خوشحالی بھی آئے گی اور قانونی کاروبار سے سمگلنگ کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی اور محصولات میں بھی آمدن ہوگی۔(۶) عوام اور اداروں کے مابین بعض اوقات غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں جن کا فوری اور مقامی حل نہایت ضروری ہے۔ ہر کمشنر کی سطح پر کمیٹیاں مقرر ہونگی جن میں عوامی نمائندے، سول، عسکری اور پولیس کے نمائندے ہونگے جو ایسے کسی بھی واقعہ یا مسئلہ پر فوری جرگہ بلائیں گے اور قابل عمل حل نکالیں گے۔ تاکہ عوام اور تمام ادارے ملکی امن اور ترقی کیلئے ہم آہنگی سے مشترکہ لائحہ عمل بناکر آگے بڑھ سکیں۔ ایسی کمیٹیاں ضلعی سطح پر بھی تشکیل دی جائیں گی۔ (۷) بنوں واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کیلئے عدلیہ کو درخواست دی جائے گی۔ تاہم حکومت اپنی انکوائری بھی کرائے گی اور ذمہ داران کا تعین کر ے گی۔ایپکس کمیٹی کی رائے میں پر امن احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ سب کا یہ فرض ہے کہ قانون اور ضابطہ اخلاق کی پاسداری ہو۔ لاقانونیت اور پر تشدد احتجاج سے گریز کیا جائے۔ تاکہ دیگر عناصر اس کو کسی اور مقصد کیلئے استعمال نہ کریں۔ مزید براں پاک فوج، پولیس اور دیگر دفاعی اداروں ا خاتمے کیلئے لازوال قربانیاں دی ہیں اور اس لئے کسی بھی ایسے غہوری ایجنڈا اور پراپیگنڈا سران جو کہ اے