ہندکو زبان (تعصب نہیں پہچان) تقریبا پانچ ہزار سال سے بھی پُرانی اپنی شناخت اور ثقافتی وجود رکھتی ہے یہ بھی مانا جاتا ہے کہ ہندکو زبان کودوسری بڑی زبانوں کی ماں بھی کہا جاتا ہے جس کا ذکر اپکو تاریخ کے کہیں پنوں سے مل سکتا ہے۔
اگر میں ہندکوزبان کی تعریف الگ الگ حصوں سے کروں تو لفظ” ہند’ ‘ دریا ہند سے نکلا ہے ہندوستان کی تقسیم سے پہلے یہ دریا ہند تھا پر تقسیم ہندوستان کے بعد پاکستان میں اس دریا کو اب دریا سندھ کہا جاتا ہے اور ”کو” کے معنی پہاڑ کے ہیں یعنی دریاہند کے دونون پہاڑی سلسلہ یا اطراف میں بولی جانے والی زبان کوہندکواور اس زبان کے بولنے والی آبادی کو ہندکووان کہا جاتا تھا۔ہندکو زبان ہندستانی خطے سے ہوتی ہوئی پاکستان اور افغانستان کے خطے ہلمند تک پھیلی ہوئی تھی پر وقت اور تعلیم کے ساتھ ساتھ زبان میں کمی دیکھنے کو ملی علاوہ ازیں یہ بات بھی سمجھی اور محسوس کی گئی کہ ہندکوزبان ہر 12سے 16کلو میٹر کے فاصلے پراپنا لہجہ تبدیل کرتی ہے پر زبان ہندکوہی کہلاتی ہے جیسا کہ میں اگر ڈیرہ اسماعیل خان کی بات کروں تو وہاں کی زبان کو ڈھیروی کہا جاتا ہے پر زبان ہندکو ہے،کوہاٹ شہر میں کوہاٹی بولی جاتی ہے لیکن زبان ہندکو ہے اسی طرح پشاوراور اسکے مضفات میں بولی جانے والی زبان بھی ہندکو ہی ہے پر کچھ مضفات میں لہجہ تبدیل ہوتا ہے پشاور سے اگے پبی،نوشہرہ، اکوڑہ خٹک، ایبٹ آباد، مانسرہ، ہزارہ ڈیویژن،شانگلہ، حسن آبدال روالپنڈی، اٹک، کشمیر اور کہیں شہروں میں ہندکو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان میں بھی کہیں کہیں مقامات پر ہندکو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
ہندکو زبان کو پشاورکی مادری زبان بھی کہا جاتا ہے اس بات کا اندازہ پشاور کی تہذب اورتمدن سے ہی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ پشاور شہر گندھاراتہذیب رکھنے والا ایک قدیمی شہر ہے کہیں فاتحین جن میں ایرانی، افغانی، سکھ، مسلمان اور اخر میں انگریز قابض ہوئے ہر ایک نے اپنے اپنے انداز سے پشاور کو مسمار کیا اور بنایا۔ہندکو زبان پشاور میں کہیں صدیوں سے بولی جانے والی سب سے بڑی زبان سمجھی جاتی ہے وہ اس لیئے کہ یہاں کے رہائشی جدی پشتی ہندکو بولتے تھے اور ل رہے ہیں یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اس شہر پشاور میں بسنے والے مکین مائی گریٹ یا دوسرے اضلاع سے نہیں تھے اور سب سے بڑی بات پشاور میں ہندکوانوں کے کاروبار اور تزئین ارائیش میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔اخر ایساکیا ہوا کہ آج پشاور میں ہندکو زبان اور ہندکووان گم سے ہو گئے ہیں اس حوالے سے زبان اور قومیت گم ہونے کے پیچھے کونسے مسائل اور تحفظات ہیں انکو جاننے اور سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پشاور شہر جو کہ 16دروازوں پر مشتمل ایک محفوظ شہر تھا اور ہر ایک دروازہ کی اپنی ایک شناخت اور پہچان تھی اور ان 16دروازوں کیساتھ ایک فصیل شہر تھی جس نے پشاور کو اپنی گود میں لپیٹے رکھا ہوا تھا یہ پشاو ایک قلعہ کی طرح نظر اتا تھا اگر اپ پشاور کے16دروازوں کی کوئی پرانی تصویر دیکھیں تو اپ کو پشاور شہر ایک قلعہ کی مانند نظر ائے گا ۔پشاورشہر ہر طرف سے محفوظ تھا ہر دروازے پر باقاعدگی سے حولدار ڈیوٹی دیتا تھا باقاعدگی سے پوچھ گوچھ کے بعد شہرکے اندر داخل ہونے کی اجازت دی جاتی تھی۔پشاور شہر کو پھولوں کا شہر بھی کہا جاتا تھا خصوصاگلاب کے پھولوں کے لیئے یہ شہر بہت مشہور تھا جس کی خوشبو سے پشار شہر ہر وقت مہطر رہتا تھا۔یہ شہرکہیں خوبصورت بازاروں کا مسکن بھی تھا پر کچھ بازار جن میں قصہ خوانی، گھنٹہ گھر، چوک یادگار، بازار کلاں، کریم پورہ، ریتی بازار جو کہ اپنی ایک تاریخی حشیت رکھتے ہیں۔اگر میں بات بازار قصہ خوانی کی کروں تو قصہ خوانی بازار صرف قصوں اور قہواہ خانوں کے لیئے ہی مشہور نہیں بلکہ یہ بازار سانحہ 23اپریل 1930ء کے حوالے سے اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے تاریخ گواہ ہے کہ اس سانحہ میں 2نڈر اور مخلص تحریک خلافت کے ہندکووان لیڈران غلام ربانی سیٹھی اور اللہ بخش برقی کو جب گھنٹہ گھر سے برٹش فوج نے گرفتار کیا تھا تو ہزاروں کی تعداد میں عوام نے اُن لیڈران کی گرفتاری پر احتجاج کے ساتھ برٹش راج کے کالے قانون کے خلاف آواز اٹھائی تو برٹش فوج کے ایک افسر نے اپنے فوجیوں کو حکم دیتے ہوئے نہتہ ہندکووانوں پر فائرنگ کروائی اور اس فائرنگ کی زد میں ہزاروں ہندکووان زخمی اور شہید ہوئے بحر حال یہ تو ایک الگ ٹاپک ہے اگر میں بات کروں بازار مسگراں جہاں مس کے برتن بنائے اور قلعی کیے جاتے تھے یہ بازار بھی اپنی ایک تاریخی حشییت رکھتا ہے اس سے اگے چوک یاد گار ایسا بازار جو ہر دور میں جلسے جلسوں کے لیئے مشہو ر تھااور آج بھی یہ چوک ہر قسم کے جلسوں اور احتجاج کے لیئے سرگرم رہتا ہے۔میں اگر گھنٹہ گھر کی بات کروں تو اس بازار کی ایک خاص بات یہاں کی گھنٹہ گھر کا کلاک یعنی گھڑی ہے کسی وقت میں اس ٹاور کی گھنٹی پورے پشاور شہر میں سنائی دی جاتی تھی اور لوگ گھنٹہ گھر کے وقت کے ساتھ گھر کا وقت برابر رکھتے تھے اسی بازار کیساتھ ایک منسلک بازار ریتی بازار جو اپنی ایک شناخت رکھتاتھا اور اب بھی رکھتا ہے اس بازار میں دہات کا سازوسامان بنایا جاتا تھا اور اب بھی بنایا جاتا ہے جہاں سے گزرتے ہوئے اپ کے کانوں کودہات کوٹنے کی آواز دہات سے بنائی اشیاء اس بازار میں ملے گئی۔ بازار کلاں ایک ایسا بازار جو تاریخی حشیت رکھتا ہے اس بازار میں سیٹھیوں کی حولیاں جو 300سال گزرنے کے باوجودسیاح کو اپنی طرف کھینچ لاتی ہیں۔ پشاور کا ایک تاریخی شناخت رکھنے والا بازار جسے کریم پورہ کہا جاتا ہے یہ وہ بازار ہے جس نے تحریک سے منسلک وہ شخصیات دیں جنہوں نے پاکستان بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا بلکہ تحریک خلافت ہو یا ہجرت اس بازار سے شروع کی گئی تمام ہجرت کے قافلے اسی بازار سے ہوکر گزرتے تھے تحریک خلافت کی ہر قسم کی میٹنگ اسی بازار کے مختلف گھروں میں رکھی اور منعقد کی جاتیں تھی۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کو حاصل کرنے میں جہان دوسری قوموں کی قربنایاں شامل تھیں وہیں پر ہندکوانوں کی بھی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ہندکوان گھرانے کے سپوتوں نے پاکستان اور اپنے شہر کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ایک زمانہ تھا کہ اس شہر پشاور میں ہندکوانوں کا راج تھا کاروبار کے مالک تھے خوبصورت اور ثقافتی گھروں کے مالک تھے پشاور شہر کے گھروں کو دیکھنے کے لیئے لوگ اندرون ملک کے علاوہ دوسرے ملکوں سے ان گھروں کی نقش و نگاری اوکاریگری دیکھنے کے لیئے اتے تھے پشاور میں موجود ہندکوانوں کے گھر اپنی مثال اپ تھے ہندکوانوں کے گھروں میں خوبصورتی اور ایک اپناہیت سی تھی جو دنیا کو اپنی طرف کھینچ لاتی تھی اور تاریخ گواہ ہے پوری دنیا میں اج بھی پشاور شہر میں موجود ہندکوونوں کے گھروں کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ہندکووان جو کہ پُرامن اور محبت کرنے والی قوم تھی اوراج بھی ہے اس قوم کی سب سے بڑی خوبی جو اپ نے کبھی نہ سُنی ہوگئی اور نہ گمان کر سکتے ہیں وہ خوبی اگرمیں بیان کروں تو وہ یہ ہے کہ اس قوم نے کبھی بھی اپنی ماں اپنے باپ اپنے بھائی اپنی بہن پر کسی بھی تنازعہ یا جائیداد کے لیئے پسٹل نہیں اٹھایا نہ ہی قتل کیا ہے بھلے اپنے رشتوں میں فاصلے پیدا کر دیے ہوں، اپنوں سے دور ہو گئے پر کبھی کسی کو قتل نہیں کیا۔اسی لیئے ہندکووان قوم کو پُر امن قوم کہا جاتا ہے۔ پشاور شہر میں مذہب کی تمیزاور عزت نظر اتی تھی ایک وقت تھا جب ہندو، مسلم، سکھ،عیسائی سب اپس میں مل جل کر رہتے تھے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے تھے ایک دوسرے کے سات اچھا رشتہ رکھتے بھلے مہذب تہوار سب کچھ الگ تھے پر محبت تھی اپنائیت تھی یہاں تک کے ایک دوسرے کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور مذہب کی عزت کرنا سکھائی جاتی تھی۔کسی زمانے میں پشاورشہر میں بھیٹک کا رواج ہوا کرتا تھا جس کا مقصد نوجوان نسل کو دینی اور دنیاوئی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت دینا ہوتا تھا جہاں بزرگوں کی عزت کرنا سکھائی جاتی تھی ماووں بہنوں کا احترام سکھایا جاتا تھا چھوٹوں پر شفقت کرنا اور بہن بھا یؤں میں اتفاق واتحاد کی تعلیم دی جاتی تھی ہمسائیوں کے حقوق کے علاوہ گلی محلہ کوصاف رکھنے اور ایک مہذب شہری بنانے کا سلیقہ بتایا جاتا تھا۔ایک زمانہ تھا جہاں پشاور شہر کے تمام بازاروں میں دکاندار اپنے گاہکوں کے ساتھ بہت عزت کیساتھ پیش اتے تھے یہاں تک کے اپنی دکان کا سامان دکان کے اندر رکھتا تھا تاکہ گاہک کو بازار سے گزرتے ہوئے کوئی تکلیف نہ ہوہر گلی محلہ کا بھی ایک محلہ دار ہوا کرتا تھا جسکا کام اپنے محلے کے ہر رہائشی کے مسائل کو حل کرنا ہوتا تھا اور وہ محلہ دار ا علاقہ کا چنا ء ہوا ممبر ہوتاتھا اور یہ محلہ دار بزرگ ہستی ہوا کرتی تھی اور بغیر کسی لالچ کے اپنے محلے کے ہر مسئلے کو حل کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتا تھا۔ناجانے پشاور کو کس کی نظر کھا گئی کہ پشاور میں نہ تو ہندکو زبان بولی جارہی ہے اور نہ ہی اس زبان کو بولنے والے ہندکووان نظر اتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ہم ہندکوانوں کی کچھ غلطیاں ہیں کہ انہوں نے اپنے گھروں میں ہندکو بولنا چھوڑ دی اور باقی ساری زبانیں بولیں یہاں تک کہ اپنے بچوں کیساتھ بھی ہندکو زبان نہ بولی صرف ا ردو بولی اور ہندکو زبان کو فروغ نہ دیا۔ہم نے اپنی زبان کیساتھ خود وفا نہیں کی اپنے بزرگوں کی عزت کی لاج نہ رکھی ہم نے ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لیئے ہر قسم کے حربے استعمال کیے ہم نے ایک دوسرے سے
اگے نکلنے کے لیئے اپنی قومیت کے لوگوں کا ہاتھ نہ تھاما۔یہاں تک کہ ہم نے اپنی ہزارہاں سال پرانی ثقافت کی حفاظت تک نہ کرسکے ہم نے اپنے آباواجداد کی زمینیں، کاروبار، گھر جائیدادیں دوسرے اضلاع سے ائے لوگوں میں مہنگے داموں بیچکر خود شہر سے باہر نکل گئے اور بڑی خوشی منائی کہ ہم نے اپنے ٹوٹے پھوٹھے گھر جائیدایں مہنگے داموں بیچ دئیں پر اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ چلومیں نے تو چھوٹی سی جگہ بیچ کر کافی پیسے بٹور لیئے پر خریدنے والا مجھ سے زیادہ کیوں خوشی کا اظہار کر رہا ہے تو آج میں بتاتا ہوں کہ خریدنے والا کیوں خوش ہے کیونکہ اس نے ہندکوانوں سے گھر جائیدادیں، کاروبار نہیں خریدے بلکہ اس نے آپ سے اپکی زبان، اپکی ثقافت بلکہ آپکی شناخت ہی خرید لی ہے اور مزے کی بات جس نے آپ سے آپکا سب کچھ خریدا وہ شخص اپنے گاوں میں بھی خان اور شہر میں آباد ہوکر بھی خان بلکہ پشوری بن گیا اور ہم ہندکووان شہر سے باہررہائیش پزیر ہوکر وہاں بھی اجنبی اور اپنے شہر پشاور میں بھی اجنبی، یہ بات سوچنے کی ہے۔ اس میں کوئی شق نہیں کہ ہم ہندکوانوں نے اپنے زبان اپنی ثقافت کے ساتھ وفا نہیں کی پر یہاں یہ بات کہنا بھی درست ہوگا کہ جو ہندکووان سیاسی شخصیات پچھلے 30/40سالوں سے سیاست میں تھے انہوں نے بھی اس قوم کیساتھ کافی کھلوار کیایہاں تک کے پشاور کے مقامی لوگوں سے ووٹ لیئے اور اسمبلیوں تک جا پنچے اور وہاں جاکر اپنی قومیت تک ظاہر نہ کر سکے بس صرف اپنی پارٹی کی نمائیندگی کرتے رہے اورپارٹی کے سیاسی نظرے پر کاربند رہتے ہوئے پارٹی کو خوش کرتے دیکھائی دیئے اور یوں زبان اور ثقافت پشاور سے ختم ہوتی رہی یہاں مجھے ایک شعر یاد اتا ہے ” مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا میری کشتی تھی ڈوبی جہاں پانی کم تھا ”یہاں اس شعر کا مطلب بھی یہ ہی ہے کہ ہمیں اپنوں نے ہی نقصان دیا ہے اگرہماری ہندکووان سیاسی شخصیات نے اسمبلیوں میں بیٹھ کر کچھ کیا ہوتا توہماری زبان ہماری ثقافت کے لیئے ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کے حوالے سے اسمبلیوں کے فلور پر بات کی ہوتی ہم ہندکووانوں کے بنیادی مسائل کی آواز بنے ہوتے تو آج پشاور اور پشاور میں مقیم ہندکوانوں کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک نہ ہوتا،اُن سیاسی شخصیات کی کمزوری کی وجہ سے دوسرے اضلاع سے ائے لوگوں ں نے بھی ہماری زبان اور ثقافت کو کافی نقصان پنچایا۔اور وہ نقصان آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ پشاور میں نہ ہماری زبان محفوظ ہے اور نہ ہی ہماری ثقافت محفوظ ہے اور نہ ہی پشاور کے کوٹے میں پشاور کے مقامی ہندکوانوں کو نوکریاں مل رہی ہیں دوسرے اضلاع سے ائے لوگوں نے تو ہمارے پشاور کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے ہزاروں سال پرانی ثقافت ہی مٹا کر رکھ دی ہے ہمارے ثقافتی گھرمسمار ا کر کے نئی عمارتیں اور پلازے بنا دیئے گئے پشاور شہر کی فصیل کو مٹا دیا گیا اب وہاں گھر اور پلازے دیکھائی دے رہے ہیں جگہ جگہ تجاویزات کے ڈھیر اندرون شہر کے بازاروں میں دکانداروں کے سامان اپنی دکان کی حدود سے
اگے نکلنے کے لیئے اپنی قومیت کے لوگوں کا ہاتھ نہ تھاما۔یہاں تک کہ ہم نے اپنی ہزارہاں سال پرانی ثقافت کی حفاظت تک نہ کرسکے ہم نے اپنے آباواجداد کی زمینیں، کاروبار، گھر جائیدادیں دوسرے اضلاع سے ائے لوگوں میں مہنگے داموں بیچکر خود شہر سے باہر نکل گئے اور بڑی خوشی منائی کہ ہم نے اپنے ٹوٹے پھوٹھے گھر جائیدایں مہنگے داموں بیچ دئیں پر اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ چلومیں نے تو چھوٹی سی جگہ بیچ کر کافی پیسے بٹور لیئے پر خریدنے والا مجھ سے زیادہ کیوں خوشی کا اظہار کر رہا ہے تو آج میں بتاتا ہوں کہ خریدنے والا کیوں خوش ہے کیونکہ اس نے ہندکوانوں سے گھر جائیدادیں، کاروبار نہیں خریدے بلکہ اس نے آپ سے اپکی زبان، اپکی ثقافت بلکہ آپکی شناخت ہی خرید لی ہے اور مزے کی بات جس نے آپ سے آپکا سب کچھ خریدا وہ شخص اپنے گاوں میں بھی خان اور شہر میں آباد ہوکر بھی خان بلکہ پشوری بن گیا اور ہم ہندکووان شہر سے باہررہائیش پزیر ہوکر وہاں بھی اجنبی اور اپنے شہر پشاور میں بھی اجنبی، یہ بات سوچنے کی ہے۔
اس میں کوئی شق نہیں کہ ہم ہندکوانوں نے اپنے زبان اپنی ثقافت کے ساتھ وفا نہیں کی پر یہاں یہ بات کہنا بھی درست ہوگا کہ جو ہندکووان سیاسی شخصیات پچھلے 30/40سالوں سے سیاست میں تھے انہوں نے بھی اس قوم کیساتھ کافی کھلوار کیایہاں تک کے پشاور کے مقامی لوگوں سے ووٹ لیئے اور اسمبلیوں تک جا پنچے اور وہاں جاکر اپنی قومیت تک ظاہر نہ کر سکے بس صرف اپنی پارٹی کی نمائیندگی کرتے رہے اورپارٹی کے سیاسی نظرے پر کاربند رہتے ہوئے پارٹی کو خوش کرتے دیکھائی دیئے اور یوں زبان اور ثقافت پشاور سے ختم ہوتی رہی یہاں مجھے ایک شعر یاد اتا ہے
” مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا
میری کشتی تھی ڈوبی جہاں پانی کم تھا ”
یہاں اس شعر کا مطلب بھی یہ ہی ہے کہ ہمیں اپنوں نے ہی نقصان دیا ہے اگرہماری ہندکووان سیاسی شخصیات نے اسمبلیوں میں بیٹھ کر کچھ کیا ہوتا توہماری زبان ہماری ثقافت کے لیئے ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کے حوالے سے اسمبلیوں کے فلور پر بات کی ہوتی ہم ہندکووانوں کے بنیادی مسائل کی آواز بنے ہوتے تو آج پشاور اور پشاور میں مقیم ہندکوانوں کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک نہ ہوتا،اُن سیاسی شخصیات کی کمزوری کی وجہ سے دوسرے اضلاع سے ائے لوگوں ں نے بھی ہماری زبان اور ثقافت کو کافی نقصان پنچایا۔اور وہ نقصان آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ پشاور میں نہ ہماری زبان محفوظ ہے اور نہ ہی ہماری ثقافت محفوظ ہے اور نہ ہی پشاور کے کوٹے میں پشاور کے مقامی ہندکوانوں کو نوکریاں مل رہی ہیں دوسرے اضلاع سے ائے لوگوں نے تو ہمارے پشاور کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے ہزاروں سال پرانی ثقافت ہی مٹا کر رکھ دی ہے ہمارے ثقافتی گھرمسمار ا کر کے نئی عمارتیں اور پلازے بنا دیئے گئے پشاور شہر کی فصیل کو مٹا دیا گیا اب وہاں گھر اور پلازے دیکھائی دے رہے ہیں جگہ جگہ تجاویزات کے ڈھیر اندرون شہر کے بازاروں میں دکانداروں کے سامان اپنی دکان کی حدود سے
باہر پڑے نظر اتے ہیں ہر وقت رہ گیر وں سے دکانداروں کی بدکلامی اور لڑائی جھگڑے خواتین کے ساتھ بدتمیزی اور بے حرمتی کے قصے سنے جاتے ہیں بازار سے اہل محلہ کے لوگوں کا گزر مشکل ہو گیا ہے اور اب تو یہ تجاویزات بازاروں سے نکل کرگلی اور کوچوں میں بھی ملتی ہے اور ہر کسی کی اپنی ہی ایک بدمعاشی نظر اتی ہے۔پشاور شہر کے اندر جگہ جگہ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، نالیاں ٹوٹی ہوئی جنکا گندا پانی سڑکوں پر کوئی پوچھنے والا ہی نہیں کہ پشاور شہر میں کیا ہو رہا ہے پشاور میں نہ بجلی ملتی ہے شہر کے بازاروں اور گلیوں میں بجلی کی بوسیدہ تاریں لٹکتی ہوئی نظر اتی ہیں پشاور میں نہ گیس میسر ہے اور گیس پایپ لائین کے لئے گلیوں کی کھدائی کے بعد ویسے ہی چھوڑ دیا گیا، پشاور میں تمام ٹیوب ویلز ناکارہ گندا پانی پینے کو میسر ہے گلی گلی کوچے کوچے میں پانی کے پائپ لائینز گندی نالیوں میں سے گزارے گئے ہیں گلی کوچوں میں سرے عام منشیات فروخت ہو رہی ہے چھوٹے چھوٹے بچے نشے کی عادی ہو چکے ہیں ائے روز ڈکیتیاں، واردات، رہزنی، قتل وغارت، کوئی پوچھنے والا ہی نہیں نہ پولیس مقامی نہ ڈکیت مقامی نہ قاتل مقامی ناجانے پشاور کو کس کی نظر لگ گئی جو پشاور اب پشاور نہیں رہا۔افسوس ہوتا ہے کہ ہماری ہندکووان قوم کو ہمارے مقامی سیاسی شخصیات نے سیاسی شعور دیا نہ سماجی سوچ بچار دیا اور نہ ہی معاشی ترقی دی اگر ہندکوانوں کو شروع ہی سے ایک سیاسی پلیٹ فارم مل جاتا تو میری نظر میں پشاور کا بیڑا غرق نہ ہوتا، سیاسی پلیٹ فارم ملنے سے ہندکووان قوم یکجا ہوتی ایک آواز ہوتی تو انکے اپنے سیاسی لیڈران ہوتے جو اسمبلیوں میں بیٹھ کر اپنی قوم کے بنیادی مسائل حل کرواتے جیسے دوسری قومیں حل کر واتی ہیں ہم ہندکووان تقسیم ہو چکے ہیں ہم صرف زندہ باد مردہ باد کرتے ہیں اور اب تو دوسرے اضلاع سے ائے سیاسی پارٹیوں کے ُامیدواروں کو ووٹ دیکرجیت کا سہرپہناتے ہوئے اپنے سر کا تاج بنا رہے ہیں پر اپنے مقامی ہندکووان امیدوار کو ووٹ دینے میں شرم محسوس کرتے ہیں جو ہم ہندکوانوں کی مذید زوال کی نشانی ہے۔پچھلے 50/55سالوں سے ہندکووان قومیت سے نہ وزیراعلیٰ اور نہ ہی گورنر لیا گیا یہاں بھی سوتیلوں جیساسلوک ہم ہندکوانوں کیساتھ دیکھنے کو ملا الحمداللہ پاکستان ہندکووان تحریک نے ہی سب سے پہلے یہ آواز اٹھائی کہ اگر وزیراعلیٰ پشتون ہوگا تو گورنر ہندکووان ہونا چائیے اور اگر وزاعلی ٰ ہندکووان چناء جاتا ہے تو گورنر پشتون قومیت سے تاکہ اس صوبے کی دونوں قوموں کو متوازن رکھا جائے اور دونوں مل کر صوبے کیساتھ اپنی قومیت کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں پر افسوس یہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے ہندکووان قومیت کو ترجیح ہی نہیں دی جا رہی ہے اور دوسرا ہندکووان قوم خود بھی ایک نہیں ہونا چاہتی ہے ہماری اسی نااتفاقی کی وجہ سے دوسری قومیں ہم پر سبقت لے گئیں اور اسٹبلشمنٹ اور ادرے بھی ہماری اس آواز پر خاموش ہیں جب کہ ہم بار ہا آوازاپنی زبان اور ثقافت کے ساتھ اس صوبے میں وزیراعلیٰ اور گورنر کے لیئے اٹھا چکے ہیں پر افسوس پچھلے کہیں سالوں سے وزیراعلیٰ ہو یا گورنر دونوں پشتون قوم سے لیئے جا رہے ہیں اور ہندکووان قوم کو بے شناخت اور اس صوبے میں اجنبی سا بنا دیا گیا ہے۔
ہمیں اپنی شناخت اور پہچان نہ کروانے سے پشاور میں لوگ ہم ہندکوانوں کو خارے، پنجابی بولتے ہیں جبکہ ہماری اپنی شناخت اور پہچان ہندکووان ہے پر افسوس ہم اسٹیج پر کھڑے ہوکر انگلش، اردو اور پشتو بولنے میں تو فخرمحسوس کرتے ہیں پر ہندکو بولنے میں ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ ہماری شان میں کمی اتی ہے آج صوبہ تو کیا پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ہم ہندکوانوں کی کوئی پہچان نہیں ہے دنیا میں اگرکوئی پشاوری سے پوچھے کہ تم کہاں سے ہو تو وہ جواب میں کہتا ہے کہ میں پشاور سے ہوں تو سوال کرنے والافورا کہتا ہے کہ” you are ”Phatanیہ ہم ہندکوانوں کے لیئے سوچنے کا مقام ہے ایک المیہ ہے کہ ہندکووان ہوتے ہوئے کسی دوسری قوم سے اپکو جوڑ دے،یاد رہے کہ پشاور پھٹانوں کا نہیں ہے ہم ہندکووانوں کا ہے ہم ہندکووانوں نے اپنے پاوں پر خوکلہاڑا مارا ہے ہم نے اپنے ہاتھ کاٹ کر دوسری قوموں کو دیئے ہیں جسکا صلہ ہم ہندکوانوں کو مل رہا ہے ہمارے بچوں کا مستقبل ہمارے سامنے موجود ہے نہ ہمارے نوجوانوں کو پشاور کے کوٹے میں نوکریاں مل رہی ہیں نہ ہی سرکاری سکولز، کالجیز اور یونورسٹیز میں ہندکو نصاب شامل ہے نہ ہی ہم ہندکوانوں کو سیاست میں رکھا جا رہاہے یہاں تک کے پشاور میں بننے والے تمام پرجیکٹس کے نام بھی پشتو میں رکھے جا رہے ہیں جسکی ایک مثال ”بی ار ٹی ”ہے جسکا نام پشتو میں ”زو”رکھا گیا ہے جبکہ پروجیکٹ پشاور کااور تکالیف، توڑ پھوڑ، گردغبار ہم اہل پشار کے لوگوں نے برداشت کی پر جب نوکریوں کی باری ائی تو دوسرے ڈسٹرکٹس سے ملازمین بھرتی کئے گئے اور تو اور ”بی ار ٹی” میں انوسمنٹ بھی انگلش، اردو اور پشتو میں رکھی گئی پرافسوس ہندکوزبان کو بُھلا دیا گیا یہاں بھی ہندکو زبان کیساتھ سوتیلا جیسا سلوک کیا گیا جبکہ یہ پروجیکٹ چارسدہ یا شبقدر کا نہیں تھایہ پروجیکٹ پشاور کا تھا تو یہاں نوکریوں کا حق بھی ہندکوانوں کو اور انوسمنٹ بھی ہندکو میں رکھی جاتی پر ایسا نہیں ہوا، جس بھی سرکاری ادارے میں جائیں وہاں پشتو بولی جاتی ہے ہم ہندکوانوں کو پشتو زبان سے کوئی تعصب نہیں ہے اور نہ کبھی ہوگابات صرف انصاف کی ہے علاوہ ازیں سب سے بڑی ضرب ہمارے اُوپر تب لگی جب اس صوبے کا نام تبدیل کیا گیا افسوس وہاں بھی نام کی تبدیلی میں اس صوبے میں سب سے پرانی زبان ہندکو اور ہندکوانوں کو فراموش کر دیاگیا نہ ہی کوئی مشاورت ہوئی نہ ہی کوئی ریفرنڈم کروایا گیا بس صوبے کا نام رکھ دیا ”خیبر پختونخوا” کیا اس صوبے میں صرف پشتو بولی جاتی ہے جسکی بنیاد پر صوبے کا نام تبدیل ہوا اورکیااس صوبے میں دوسری کوئی زبان نہیں بولی جاتی اور سمجھی جاتی ہے افسوس ہوتا ہے کہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔
خدارا ہندکوانوں خود کو پہچانوں اپنی زبان اور ثقافت کی قدر کرو اس صوبے میں بلکہ پورے پاکستان میں اپنی قومیت کو روشن کرواپنی عزت اور زبان کا مان بناواپنی زبان کیساتھ دنیا میں ترقی پاو جسیے دوسری قوموں نے دنیا میں اپنا نام اور مقام بنایا ہے خود کو قوم پرست ثابت کرو اوراگے بھڑو اور خود کو کہو ” میں واں ہندکووان”۔ یاد رکھناجو قوم اپنی زبان اپنی ثقافت سے منہ پھرتی ہے تو اس قوم کا نام و نشان تک نہیں رہتا وہ قوم صفہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔ ہندکو لکھ تے ہندکو بول تے قائم رکھ اپڑا ماحول تحریر خواجہ محمد اکبر سیٹھی صوبائی صدر پاکستان ہندکووان تحریک-