بنگلہ دیش کی سبکدوش ہونے والی وزیر اعظم شیخ حسینہ ملک کے سیاسی منظر نامے میں سب سے زیادہ بااثر اور متنازعہ شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ان کا کیریئر، جو کئی دہائیوں پر محیط ہے، قابل ذکر کامیابیوں اور اہم تنازعات دونوں کی عکاسی کرتا ہے، جس سے وہ جدید بنگلہ دیش کو سمجھنے میں ایک اہم شخصیت بن جاتی ہیں۔1947 میں پیدا ہونے والی شیخ حسینہ کی زندگی اور کیریئر بنگلہ دیش کے ایک آزاد ملک کے طور پر ابھرنے سے جڑا ہوا ہے۔ ان کے والد شیخ مجیب الرحمٰن نے 1971 میں ملک کو پاکستان سے آزادی دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جنگ آزادی کے اثرات، جس کا انہوں نے براہ راست تجربہ کیا، نے ان کے سیاسی نظریے کو نمایاں شکل دی۔ سنہ 1975 میں اپنے والد کے قتل کے بعد حسینہ واجد کئی سال تک جلاوطنی کی زندگی بسر کرتی رہیں اور 1980 کی دہائی کے اواخر میں بنگلہ دیش واپس آئیں اور بنگلہ دیشی سیاست کی ہنگامہ خیز دنیا میں دوبارہ قدم رکھا۔حسینہ واجد کے سیاسی سفر کا اپنے والد کی وراثت اور عوامی لیگ سے وابستگی سے گہرا تعلق رہا ہے۔ وہ 1981 میں پارٹی کی صدر بنیں اور حزب اختلاف کی قیادت کرنے لگیں۔ 1996 میں جب وہ بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں تو ان کی ثابت قدمی رنگ لائی۔ ان کی ابتدائی مدت صدارت میں اہم پیش رفت ہوئی ، جس میں معاشی لبرلائزیشن ، غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ، اور معیار زندگی میں نمایاں اضافہ شامل تھا۔ ان کی قیادت میں بنگلہ دیش عالمی گارمنٹس انڈسٹری کا ایک اہم کھلاڑی بن گیا اور تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال پر ان کی توجہ اسکولی بچوں کو مفت درسی کتب کی فراہمی جیسے اقدامات سے نمایاں ہوئی۔ان کامیابیوں کے باوجود حسینہ واجد کا دور حکومت تنازعات سے خالی نہیں رہا۔ ان کی انتظامیہ کو عدلیہ کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کی وجہ سے سیاست اور عدالتی آزادی کو ختم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ سیاسی اختلاف رائے کے حوالے سے ان کی حکومت کے نقطہ نظر، خاص طور پر جماعت اسلامی کے بارے میں، انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مذمت کی گئی ہے۔ مزید برآں، 2006-2008 کے سیاسی بحران، جس میں سڑکوں پر پرتشدد مظاہرے اور فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت شامل تھی، نے ان کی قیادت پر ایک طویل سایہ ڈال دیا۔سنہ 2009 میں حسینہ واجد زبردست کامیابی کے ساتھ اقتدار میں واپس آئیں اور ان کے سیاسی کیریئر کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد سے، انہوں نے عہدے پر مزید دو مدتیں حاصل کی ہیں. تاہم، ان کامیابیوں کو انتخابی دھوکہ دہی اور ڈرانے دھمکانے کے الزامات سے دوچار کیا گیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے دور حکومت میں جمہوری آزادیوں میں گراوٹ آئی ہے اور سیاسی اختلاف رائے کے لیے جگہ سکڑتی جا رہی ہے۔ دوسری جانب ان کے حامی معاشی ترقی اور بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر ان کی مسلسل توجہ کو ملک کی ترقی کے لیے ان کی وابستگی کے ثبوت کے طور پر دیکھتے ہیں۔جیسا کہ شیخ حسینہ اپنے سیاسی کیریئر کے آخری حصے میں پہنچ رہی ہیں، ان کی وراثت شدید بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ حامی انہیں ایک دور اندیش رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش کو جنگ زدہ ملک سے پھلتی پھولتی معیشت میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم ناقدین انہیں ایک مطلق العنان حکمران کے طور پر دیکھتے ہیں جس نے جمہوری اصولوں پر سمجھوتہ کیا ہے اور سیاسی آزادیوں پر قدغن لگائی ہے۔ پہلے1996 سے 2001 تک اور پھر 2009 سے آج تک عہدے پر فائز رہنے کے بعد، وہ دنیا کی واحد خاتون جس نے سب ذیادہ طویل عرصے تک حکومت کی سربراہ رہیں ہیں انہیں اس دوران مہذہبی جماعتوں اور بھرپور مداخلت کرنے والی فوج، دونوں کو زیر کرنے کا سہرا دیا جاتا ہے۔ مارگریٹ تھیچر اور اندرا گاندھی سے بھی زیادہ انتخابات جیتنے والی حسینہ واجد کہتی تھیں کہ ‘مجھے یقین ہے کہ میرے لوگ میرے ساتھ ہیں۔ “وہ میری سب سے بڑی طاقت ہیں.” حسینہ واجد کو گزشتہ برسوں کے دوران قتل کی 19 کوششوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حالیہ مہینوں میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے حامیوں کی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں، جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا، پولیس کی گاڑیوں اور عوامی بسوں کو نذر آتش کیا گیا اور 300 کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ بی این پی نے 2014 اور 2018 کی طرح جنوری کے انتخابات کا بھی بائیکاٹ کیا تھا۔ کیونکہ اپوزیشن کا یہ کہنا تھا کہ حسینہ واجد الیکشن سے قبل اقتدار کسی نگران حکومت کے حوالے کرے لیکن آہینی ترمیم کے بعد بنگلہ دیش میں نگران سیٹ اپ کا نظام ختم کردیا جا چکا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حسینہ واجد کی عوامی لیگ پارٹی کے تحت بنگلہ دیش نے آمرانہ رخ اختیار کر لیا تھا۔ گزشتہ دو انتخابات کی امریکہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک نے اہم بے ضابطگیوں پر مذمت کی تھی۔ جبکہ دو بار کی سابقہ وزیر اعظم اور بی این پی رہنما خالدہ ضیاء جو آجکل شدید بیمار ہیں اور بدعنوانی کے مشکوک الزامات کا سامنہ کر رہیں ہیں۔ اسی طرح، بی این پی کارکنوں کو 40 لاکھ قانونی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جبکہ آزاد صحافیوں اور سول سوسائٹی نے بھی انتقامی ہراسانی کی شکایت کی ہے۔ جبکہ ناقدین کا جنوری کے الیکشن سے پہلے ہی یہ کہنا تھاکہ 2024 کا الیکشن تاج پوشی اور حسینہ واجد کو ڈکٹیٹر بنانے کے مترادف ہے۔بی این پی کے سیکرٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالمگیر، جن پر توڑ پھوڑ اور قتل سمیت 93 مقدمات درج ہیں اور 9 بار جیل جا چکے ہیں، کہتے ہیں کہ “حکمراں جماعت تمام ریاستی مشینری کو کنٹرول کر رہی ہے، چاہے وہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں یا عدلیہ۔ ”جب بھی ہم اپنی آواز اٹھاتے ہیں، وہ ہم پر ظلم کرتے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ کو بنگلہ دیش کے آمریت کی طرف بڑھنے پر تشویش رہی ہے۔ حسینہ واجد کو امریکہ کی میزبانی میں ہونے والے حالیہ دو سربراہی اجلاس برائے جمہوریت میں مدعو نہیں کیا گیا تھا اس کے جواب میں حسینہ واجد نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ امریکہ ان کی برطرفی کا منصوبہ بنا کر جمہوریت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کے الزامات کے بارے میں پوچھے جانے پر بنگلہ دیش میں امریکہ کے سفیر پیٹر ڈی ہاس کا اصرار تھا کہ واشنگٹن ‘کسی فریق کا انتخاب نہ کرنے کے بارے میں محتاط ہے۔’لیکن ایک ایسے وقت میں جب امریکہ ہر موڑ پر چین کے بڑھتے ہوئے علاقائی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے بے چین ہے، اور دوسری جانب بنگلہ دیش کے آئینی طور پر سیکولر ہونے کے باوجود 1988 میں ایک فوجی آمر نے جب اسلام کو ریاستی مذہب بنا دیا تو امریکہ کے نزدیک اس سے تضاد پیدا ہوا جو بنیاد پرستوں کے لیے زرخیز زمین ثابت ہوئی۔حسینہ واجد کی معاشی کامیابیاں متاثر کن رہی ہیں۔ وہ بنگلہ دیش جو اپنی عوام کو کھانا کھلانے کے لئے بھرپور جدوجہد کرتا نظر آتا تھا وہ خوراک برآمد کرنے والا ملک بن گیا جس کی جی ڈی پی 2006 میں 71 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2022 میں 460 بلین ڈالر ہوگئی تھی ، جس کی وجہ سے یہ ہندوستان کے بعد جنوبی ایشیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن گیا تھا۔ سماجی اعدادوشمار میں بھی بہتری آئی اور آج بنگلہ میں 98 فیصد لڑکیاں پرائمری تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ بنگلہ دیش ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ کی طرف بڑھ رہا ہے، جس سے سام سنگ جیسی بین الاقوامی کمپنیوں کو چائنہ سے سپلائی چین نکالنے کی اجازت مل گئی ہے۔ ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والے عوامی لیگ کے قانون ساز، پروفیسر محمد علی عرفات نے کہا کہ جب جمہوریت، انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کی بات آتی ہے تو ہمیں یقینا بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ ”لیکن ہم نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔”بنگلہ دیش بھی آب و ہوا کے بحران میں فرنٹ لائن پر بیٹھا ہے۔ مشرقی پاکستان کے نام سے جانی جانے والی یہ قوم 1971 کی خانہ جنگی کے دھوئیں میں وجود میں آنے والا یہ سمندری کنارے والا وہ ملک، جس پر پانی نے ہزاروں سالوں سے یہاں کی زندگیوں کو ڈکٹیٹ کر رکھا ہے۔ ہمالیہ کے بلند و بالا پہاڑوں سے نکلنے والی برف بنگلہ دیش کے دریاؤں میں ہر سال 165 ٹریلین گیلن پانی بہاتی ہے۔ آسمان سے باقاعدگی سے آنے والے سمندری طوفان ایک نشیبی ڈیلٹا کو متاثر کرتا ہے جو 80 فیصد سیلابی علاقہ ہے، جس کی وجہ سے سالانہ تقریبا ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔اور اگر بنگلہ دیشی زندگی پر پانی کی حکمرانی ہے تو اس کی سیاست خون سے لت پت ہے۔ پچھلی نصف صدی سے، دو خاندان اور اب ان کی قیادت کرنے والی عورتیں ایک تلخ جھگڑے میں پھنسی ہوئی ہیں۔ ایک طرف شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی حسینہ واجد ہیں، جنہیں بنگلہ دیش کے پہلے صدر شیخ مجیب کے نام سے جانا جاتا ہے، جنہیں 1975 میں فوجی بغاوت میں ان کے 17 قریبی رشتہ داروں کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا۔ (حسینہ شاید صرف اس لیے زندہ رہیں کیونکہ وہ اس وقت یورپ میں تھیں). دوسری طرف خالدہ ضیاء ہیں جو سابق آرمی چیف اور بی این پی کے بانی ضیاء الرحمان کی بیوہ ہیں جنہوں نے مجیب کے قتل سے لے کر 1981 میں اپنے قتل تک ملک کی قیادت کی۔یہ دونوں بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد میں اپنے خاندان کے کردار سے خصوصی حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کیلئے بھی حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ حسینہ واجد نے بی این پی کو ایک “دہشت گرد جماعت” قرار دیا جو “جمہوریت میں کبھی یقین نہیں رکھتی”۔ ان کا کہنا تھا کہ ”خالد ضیاء نے ایک فوجی ڈکٹیٹر کی طرح حکومت کی،”۔ اس کے برعکس بی این پی اپنی پارٹی پر منظم جبر اور اس کی قیادت کے خلاف جھوٹے الزامات اور مقدمات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا کی ڈپٹی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کہتی ہیں کہ ‘بنگلہ دیش کی سیاست میں اکثر سڑکوں پر تشدد شامل رہا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ہر طرف خون ریزی عام ہے۔حسینہ واجد نے اپنی حکومت کی جانب سے شفاف بیلٹ باکسز اور شناختی کارڈز اور بائیو میٹرک ڈیٹا سے منسلک رجسٹریشن پیپرز متعارف کروانے کو آزادانہ انتخابات کے عزم کا ثبوت قرار دیا۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے ڈی این اے میں جمہوریت ہے۔ اپنے والد کے قتل کے بعد حسینہ واجد اور ان کی بہن نے مغربی جرمنی میں بنگلہ دیش کے سفیر کے گھر میں پناہ لی تھی جس کے بعد انہیں بھارت میں سیاسی پناہ مل گئی تھی۔بنگلہ دیش نے 1977 میں ضیاء الرحمان کے دور حکومت میں اسلامائزیشن کا آغاز کیا تھا۔ ان کی بی این پی آج زیادہ قدامت پسند گروہوں کے ساتھ اتحادی ہے، جبکہ بنگلہ دیش کی مذہبی اقلیتیں روایتی طور پر عوامی لیگ کی حمایت کرتی رہی ہیں۔یہ ایک عجیب و غریب انتقامی کارروائی ہے جس کی وجہ سے ان پر خوف و ہراس پھیلانے کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ حسینہ اس بات پر زور دے سکتی ہیں کہ ان کا ریکارڈ مثالی رہا ہے، ”کھانا، کپڑے، رہائش، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، روزگار کے مواقع”، ”میں یہ کر رہی ہوں اور میں نے یہ کیا ہے”۔ فریڈم ہاؤس بنگلہ دیش کو “جزوی طور پر آزاد” سمجھتا ہے اور اس کی معیشت اب بھی زراعت، سستے ملبوسات کی برآمدات اور ہر سال 14 ملین تارکین وطن کی طرف سے تقریبا 25 بلین ڈالر گھر بھیجے جانے پر منحصر ہے۔ ان ترسیلات زر نے معاشی دباؤ کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ، خاص طور پر جب یوکرین پر حملے کے بعد ایندھن اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں بنگلہ دیش دنیا بھر کے 180 ممالک میں سے 147 ویں نمبر پر ہے جو ایران کے برابر اور طالبان کے زیر اقتدار افغانستان سے ایک درجہ اوپر ہے۔ حسینہ واجد کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں اب ‘ہر شخص کے پاس موبائل فون ہے’ اور یہ ملک 2026 میں اقوام متحدہ کے سب سے کم ترقی یافتہ ممالک کے گروپ سے نکل جائے گا۔ لیکن یہ کسی بھی لحاظ سے ایک انتہائی نچلی حد ہے۔ اس وقت تک صرف میانمار، افغانستان اور کمبوڈیا ہی باقی رہ جائیں گے۔ براک اوباما سمیت 170 سے زائد عالمی رہنماؤں اور نوبل انعام یافتہ شخصیات نے ایک کھلا خط لکھا تھا جس میں حسینہ واجد پر زور دیا گیا تھا کہ وہ بنگلہ دیش کے 2006 کے نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کو ‘مسلسل عدالتی ہراساں کرنے’ کا سلسلہ بند کریں۔ حسینہ واجد نے یونس کے خلاف لیبر قانون کی خلاف ورزی، بدعنوانی اور منی لانڈرنگ سمیت 174 الزامات عائد کیے تھے۔بنگلہ دیش کے نئے سائبر سکیورٹی ایکٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر حسینہ واجد نے ایک بار پھر دفاعی انداز میں کہا کہ ‘آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں کچھ لوگ ہمیشہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔’ یہ کسی بھی تنقید کا عادی رد عمل ہے۔ حسینہ کہتی تھیں کہ ‘میں یہاں صرف اپنے والد کے خواب کو پورا کرنے آئی ہوں۔لیکن ضروری نہیں کہ یہ خواب ایک جمہوری بنگلہ دیش ہو۔ 24 فروری 1975 ء کو ، باغی فوجیوں کے ہاتھوں اپنے قتل سے تقریبا چھ ماہ قبل ،شیخ مجیب نے تمام سیاسی جماعتوں کو تحلیل کردیا تھا اور خود کو بکسال کے نام سے ایک جماعتی ریاست کا سربراہ مقرر کیا ، جس کا مقصد بظاہر ملک کو ہنگامی حالت میں دیکھنا تھا۔ حالانکہ ناقدین پہلے ہی حسینہ واجد کی حکومت کو “بکسال 2.0” کا نام دے چکے ہیں۔ یہاں تک کہ حسینہ واجد کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش گرے زون میں ہے: “جمہوریت کی ایک مختلف تعریف ہے جو ہر ملک میں مختلف ہوتی ہے۔ حسینہ واجد کہا کرتی تھیں کہ ‘جمہوری نظام کے ذریعے میرا تختہ الٹنا اتنا آسان نہیں ہے۔ “واحد آپشن صرف مجھے ختم کرنا ہے. اور میں اپنے لوگوں کے لئے مرنے کے لئے تیار ہوں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیخ حسینہ اتنی پاپولر تھی تو پھرلوگ احتجاج کیوں کر رہے تھے؟ایک ماہ سے بھی کم عرصہ قبل ملک بھر میں مظاہرے شروع ہوئے تھے جس میں 1971 میں پاکستان کے خلاف جنگ لڑنے والے سابق فوجیوں کے اہل خانہ کے لیے سرکاری ملازمتوں میں 30 فیصد کوٹہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس وقت سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ سابق فوجیوں کا کوٹہ گھٹا کر پانچ فیصد کیا جانا چاہیے اور 93 فیصد نوکریاں میرٹ پر مختص کی جائیں گی۔ بقیہ 2 فیصد نسلی اقلیتوں اور ٹرانس جینڈر اور معذور افراد کے لئے مختص کیا جائے گا۔اگرچہ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کر لیا تھا، لیکن مظاہرین نے تشدد کے لئے احتساب کا مطالبہ جاری رکھا جس کا الزام انہوں نے حکومت کے طاقت کے استعمال پر عائد کیا۔ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں کم از کم 11,000 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے مظاہرین پر ‘تخریب کاری’ کرنے اور اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے موبائل انٹرنیٹ سروس بند کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ڈھاکہ، ڈویژنل اور ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں اتوار کی شام سے غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ ہے۔حسینہ واجد نے کہا کہ تخریب کاری اور تباہی پھیلانے والے مظاہرین اب طالب علم نہیں بلکہ مجرم ہیں اور لوگوں کو ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔ دوسری جانب حکمراں جماعت عوامی لیگ نے کہا ہے کہ حسینہ واجد کے استعفے کا مطالبہ ظاہر کرتا ہے کہ ان مظاہروں پر مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور کالعدم جماعت اسلامی نے قبضہ کر لیا ہے۔حسینہ واجد کی انتظامیہ نے حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور کالعدم دائیں بازو کی پارٹی ،جماعت اسلامی اور ان کے طلبہ ونگز پر تشدد بھڑکانے کا الزام عائد کیا ہے، جس میں متعدد سرکاری اداروں کو بھی نذر آتش کیا گیا یا توڑ پھوڑ کی گئی۔بنگلہ دیش میں کشیدگی میں اضافہ ہوا تو طلبہ رہنماؤں نے وزیر اعظم حسینہ واجد کی مذاکرات کی اپیل مسترد کردیبنگلہ دیش میں طلبہ تحریک کے رہنماؤں کی جانب سے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی مذاکرات کی دعوت مسترد کیے جانے کے بعد کشیدگی میں ایک بار پھر اضافہ ہو گیا تھا جبکہ مظاہرین نے دارالحکومت کی اہم سڑکوں کا محاصرہ بھی کر رکھا تھا۔تاہم، انسداد امتیازی اسٹوڈنٹ موومنٹ کے کوآرڈینیٹرز نے جمعے کے روز کہا کہ ان کا حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، اور راتوں رات، انہوں نے ملک بھر میں سڑکوں پر احتجاج اور “مکمل طور پر عدم تعاون” یا سول نافرمانی مہم کی کال دی۔ تشدد کی تازہ لہر اس وقت شروع ہوئی جب مظاہرین نے “عدم تعاون” کی کوششوں کا مطالبہ کیا اور لوگوں پر زور دیا کہ وہ ٹیکس یا یوٹیلٹی بل ادا نہ کریں اور اتوار کو کام پر نہ آئیں۔ دفاتر، بینک اور فیکٹریاں کھل گئیں، لیکن ڈھاکہ اور دیگر شہروں میں مسافروں کو اپنی ملازمتوں تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حسینہ واجد نے ان ہلاکتوں کی تحقیقات اور تشدد کے ذمہ داروں کو سزا دینے کے اپنے وعدوں کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی مظاہرین چاہیں بیٹھنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ یہ احتجاج حسینہ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے، جنہوں نے 15 سال سے زیادہ عرصے تک ملک پر حکومت کی ہے۔ وہ جنوری میں ہونے والے انتخابات میں مسلسل چوتھی مدت کے لیے اقتدار میں واپس آئیں جس کا ان کے اہم مخالفین نے بائیکاٹ کیا تھا۔بنگلہ دیش بھر میں حکومت مخالف مظاہرین نے پیر کے روز دارالحکومت ڈھاکہ تک مارچ کرنے کا منصوبہ بنایا اور فوج کو شیخ حسینہ واجد سے استعفیٰ لینا پڑا اور اسکے بدلے ان کو محفوظ راستہ دیا گیا اور وہ واپس ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا چلی گئیں۔