پاکستانی اتھلیٹ ارشد ندیم ٹوکیو اولمپکس 2020 میں عوام کی نظروں کا مرکز بنے تھے۔ ان مقابلوں میں انڈیا کے نیرج چوپڑہ نے طلائی تمغہ جیتا تھا جبکہ ارشد ندیم نے پانچویں پوزیشن حاصل کی تھی۔۔۔۔ اس موقع پر عوام میں امید پیدا ہوئی کہ پاکستان کا یہ جوان تین دہائیوں کے انتظار کے بعد پاکستان کو اولمپک میڈل جیتا سکتا ہے۔۔۔
اس سے پہلے ایشین گیمز 2018 جکارتہ میں ارشد ندیم کانسی کا تمغہ جیت چکے تھے، ان مقابلوں میں بھی طلائی تمغہ نیرج چوپڑہ نے جیتا تھا۔ لیکن پاکستان میں کسی نے ارشد ندیم پر توجہ نہ دی، ان کو تریبت کے لیے سہولیات ملی نہ حکام کی جانب سے حوصلہ افرائی ہوئی!
اس سے پہلے وہ جونیئر مقابلوں اور جنوبی ایشیائی کھیلوں میں بھی کامیابیاں سمیٹ چکے تھے۔۔۔ لیکن اس جانب کس نے توجہ دی؟
ارشد ندیم نے اپنی مدد آپ کے تحت محنت جاری رکھی۔۔۔ سنہ 2022 برمنگھم میں منعقدہ کامن ویلتھ گیمز میں نیرج چوپڑہ شرکت نہ کر سکے۔ ارشد ندیم نے طلائی تمغہ حاصل کیا۔
اسی سال امریکہ میں منعقد ورلڈ اتھلیٹکس چیمپئن شپ میں ارشد ندیم نے پھر میدان میں قدم رکھا۔ اس بار بھی قسمت نے ساتھ نہ دیا اور وہ پانچویں نمبر پر رہے۔۔ نیرج چوپڑہ پر قسمت کی دیوی مہربان رہی اور انہوں نے چاندی ک تمغہ جیتا۔
اور پھر یہ موقع آیا جس کی تصویر منسلک ہے۔ ورلڈ اتھلیٹکس چیمپین شپ 2023، ہنگری کا شہر بڈاپسٹ۔۔۔ نیرج چوپڑہ طلائی اور ارشد ندیم نے چاندی کے تمغے کے ساتھ جیولین تھرو کی دنیا میں جنوبی ایشیا کی حکمرانی ثابت کر دی۔۔۔تیسری پوزیشن چیک ری پبلک کے جیکب ودلیچ لیکن افسوسناک پہلو یہ تھا کہ ارشد ندیم یا کسی آفیشل یا کسی تماشائی کے پاس اس عالمی میدان پر لہرانے کے لیے پاکستانی پرچم نہیں تھا۔۔۔
مقابلے کے بعد فاتح کھلاڑی پریس اور میڈیا کے لیے تصاویر بنوانے لگے تو ارشد ہچکچاہٹ کا شکار تھے، انڈین اور چیک کھلاڑی اپنا ملک کا پرچم لپیٹے ہوئے تھے۔۔۔ اس بارے میں نیرج چوپڑہ نے بعد میں بتایا تھا کہ ارشد ندیم کے پاس پرچم نہیں تھا تو انہوں نے اس کے بغیر ہی ایک ساتھ تصاویر بنوانے کے لیے بلایا۔۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ’ارشد پاکستان کے لیے بہت اچھا کھیلا۔ مجھے افسوس ہوا کہ اس کے پاس پرچم نہیں تھا اور اس کو بھی اس بات پر دکھ تھا لیکن بعد میں مل گیا تھا۔‘
اور اب ایک بار پھر ارشد ندیم اور نیرج چوپڑہ پیرس اولمپکس 2024 میں ایک میدان پر اپنی طاقت اور صلاحیت کا ہنر دکھانے کے لیے تیار ہیں۔۔۔ دیکھتے ہیں اس بار کامیابی کس کے قدم چومتی ہے۔۔۔
آٹھ اگست کو فائنل مقابلوں کے لیے کوالیفائی ہونے کے بعد ارشد ندیم نے نیرج چوپڑہ کے لیے ان الفاظ میں نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے:
’یہ میرے لیے بہت خوشی کی بات ہے کہ جنوبی ایشیا سے صرف ہم دو، میں اور نیرج بھائی عالمی سطح پر دیگر کھلاڑیوں کا مقابلہ کریں گے۔
’میں اُمید کرتا ہوں کہ ہم عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر کے بین الاقوامی سطح پر اپنے اپنے ملک کا نام روشن کریں گے۔‘
پاکستان نے اولمپکس میں آخری مرتبہ انفرادی مقابلوں میں سیئول اولمپکس 1988میں تمغہ حاصل کیا تھا جب باکسنگ کے مقابلوں میں کانسی کا تمغہ حسین شاہ کے نام رہا تھا۔