تحریر: علی احمدی
غزہ جنگ شروع ہوئے 308 دن بعد امریکہ، مصر اور قطر نے جنگ بندی کیلئے بیانیہ جاری کیا جبکہ اسی دوران اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم پوری گستاخی سے غزہ میں عام شہریوں کے گھروں اور پناہ گزین کیمپوں اور اقوام متحدہ کے اسکولوں پر وحشیانہ بمباری کرنے میں مصروف ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرائم پیشہ صیہونی حکمران مغربی طاقتوں کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت کی چھتری تلے بین الاقوامی قوانین سے مستثنی تصور کئے جاتے ہیں اور ایسی وحشی رژیم کو لگام ڈالنے کا واحد راستہ برتر فوجی طاقت بروئے کار لانے کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ امریکہ، مصر اور قطر کی جانب سے جنگ بندی کا بیانیہ اگرچہ غاصب صیہونی رژیم اور حماس کے درمیان جنگ روک کر جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کرنے پر بہت زیادہ زور دیتا ہے لیکن گذشتہ مغربی اور عرب بیانیوں کی مانند اس میں غاصب صیہونی رژیم کو اب تک شہید ہونے والے بے گناہ فلسطینیوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔
اس بیانیے میں دعوی کیا گیا ہے: “ہم کئی ماہ سے جنگ بندی معاہدے کے درپے تھے جو اب ہماری ٹیبل پر ہے اور اس میں صرف اجراء سے متعلق تفصیلات باقی رہ گئی ہیں۔ اب مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے اور فریقین میں سے کسی کے پاس مزید تاخیر کا بہانہ نہیں ہونا چاہئے”۔ فرانسیسی صدر اور یورپی یونین کے سیکرٹری خارجہ نے بھی اس پیشکش کی حمایت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ برسلز بھی دوحہ، قاہرہ اور واشنگٹن کی مانند جنگ بندی اور قیدیوں کی آزادی کا خواہش مند ہے۔ انہوں نے نعرہ لگایا ہے کہ “غزہ میں جنگ رک جانی چاہئے”۔ تین طرفہ بیانیے کی روشنی میں جنگ بندی معاہدے کی اساس وہ اصول ہوں گے جو امریکی صدر جو بائیڈن نے 31 مئی کے دن پیش کئے تھے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 2735 میں انہیں منظور کیا تھا۔
امریکہ، مصر اور قطر نے اسرائیل اور حماس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 15 اگست کے دن دوحہ یا قاہرہ میں امن مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کریں تاکہ باقیماندہ اختلافات حل ہو سکیں۔ دوسری طرف صیہونی سیکورٹی ایجنسیز سے وابستہ عبری نیوز ویب سائٹ واللا نیوز کے صحافی براک راوید نے تین دن پہلے ایک رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ دو اعلی سطحی صیہونی عہدیداروں نے اسے بتایا ہے کہ مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار ہو چکے ہیں اور فی الحال جنگ بندی معاہدے کا حصول دور از امکان ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ میں خواتین، بچوں، بوڑھوں، پناہ گزینوں اور حتی صحافیوں کی قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ آج صبح ہی صیہونی جنگی طیاروں نے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی غزہ کے ایک ایسے اسکول پر امریکہ سے حاصل کردہ 1 ٹن وزنی تین بم گرا دیے۔ یہ حملہ فجر کے وقت انجام پایا اور اب تک اس میں 120 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
یہ بیانیہ بدھ کے روز اس وقت جاری کیا گیا جب غاصب صیہونی رژیم نے مشرقی غزہ میں دو اسکولوں الزھرا اور عبدالفتاح حمود کو وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنایا جن میں ابتدائی رپورٹس کے مطابق 15 فلسطینی شہید ہو گئے جبکہ دسیوں دیگر زخمی ہیں۔ حماس نے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عدالتی مراکز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان شرمناک انسانی جرائم پر اپنی ذمہ داری ادا کریں اور صیہونی حکمرانوں کے جنگی جرائم پر ان کے خلاف عدالتی کاروائی کریں۔ بنجمن نیتن یاہو شدید اندرونی اور عالمی دباو سے مجبور ہر کر معافی مانگنے پر مجبور ہوا ہے لیکن اس کا واحد مقصد صیہونی آبادکاروں کو دھوکہ دے کر ان میں موجود اپنے خلاف نفرت اور غم و غصے کی شد کم کرنا ہے۔ صیہونی وزیراعظم نے میگزین ٹائم سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میں 7 اکتوبر کے حملوں پر معافی مانگتا ہوں اور اس پر گہرے افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔
بنجمن نیتن یاہو نے مزید کہا: “ہم نہ صرف حماس بلکہ ایران کی سربراہی میں وسیع محاذ سے روبرو ہیں اور ہمیں وسیع پیمانے پر دفاع کیلئے خود کو تیار کرنا چاہئے۔ ہمارا مقصد غزہ میں حماس پر فیصلہ کن فتح حاصل کرنا ہے تاکہ جنگ کے آخر میں وہ اسرائیل کیلئے خطرہ ثابت نہ ہو سکیں۔” دلچسپ بات یہ ہے کہ نیتن یاہو نے دعوی کیا ہے کہ وہ غزہ جنگ کا ایک علاقائی جنگ تک پھیل جانے کے خطرے سے آگاہ ہے لیکن اس کے نتائج کو قبول کرتا ہے۔ درحقیقت بنجمن نیتن یاہو نے اپنے انٹرویو میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اس کا مقصد وہی ماضی والا ناممکن مقصد یعنی حماس کی مکمل نابودی ہے۔ اس مقصد کیلئے اس نے پورے مشرق وسطی کو جنگ کی آگ میں دھکیل دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ نیتن یاہو نے کہا: “ہر وہ معاہدہ جس میں یرغمالیوں کی آزادی یقینی ہو لیکن غزہ پر حماس کی حکومت کا خاتمہ یقینی نہ ہو ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہو گا۔”
بنجمن نیتن یاہو نے اسی طرح وزیراعظم کے عہدے پر برقرار رہنے پر بھی زور دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس نے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے (معافی مانگ کر) دو قدم آگے بڑھائے ہیں۔ عبری زبان میں شائع ہونے والے اخبار معاریو نے اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر مستقبل قریب میں ایسی وسیع جنگ شروع ہوتی ہے جس میں اسرائیل سات محاذوں پر ایک ساتھ لڑنے پر مجبور ہو جائے گا تو اس کی پوری ذمہ داری وزیراعظم پر ہو گی۔ اخبار لکھتا ہے: “بنجمن نیتن یاہو ضروری اقدام یعنی قیدیوں کے تبادلے سے گریز کر رہا ہے”۔ اس تجزیے کی روشنی میں نیتن یاہو ایسے وقت حماس سے جنگ بندی معاہدہ انجام دینے سے گریز کر رہا ہے کہ غزہ کے قریب تمام علاقے تباہ ہو چکے ہیں جبکہ شمال میں لبنان کی سرحد کے قریب علاقے بھی جنگ کی آگ میں جل رہے ہیں۔ نیتن یاہو ایک طرف انتہاپسند وزیروں جیسے بن گویر اور اسماتریچ اور دوسری طرف اپنی بیوی اور بیٹے کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن چکا ہے۔