ماسٹر اور ٹیچر میں فرق 🤔
میرا بیٹا نیا نیا اسکول میں داخل ہوا تو میں نے اس سے پوچھا :
” بیٹا آپ کے ماسٹروں کے کیا نام ہیں “
وہ کہنے لگا۔۔۔ ” کون سے ماسٹر ابو ؟ “
میں نے کہا ” بیٹے وہی ماسٹر جو آپ کے اسکول میں ہوتے ہیں “
” نہیں ابو ہمارے اسکول میں تو کوئی ماسٹر نہیں ہوتے ” وہ بولا ۔
ہائیں ! ” غضب خدا کا اسکول میں ماسٹر نہیں ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے “
” کہہ جو رہا ہوں کہ ہمارے اسکول میں ماسٹر نہیں ہیں “
” ماسٹر نہیں ہیں تو پھر تمھیں پڑھاتا کون ہے ؟ “
” ہمیں ٹیچر پڑھاتے ہیں “
” اچھا ۔۔۔۔۔۔ بہت خوب ۔۔۔۔ بہر حال آپ کے اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہو گا “
” وہ بھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ ہمارے پرنسپل ہیں “
تھوڑی دیر کے بعد میرا بیٹا کہنے لگا :
” ابو آپ کے زمانے میں تو ماسٹر ہوا کرتے تھے ناں تو ماسٹر اور ٹیچر میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ “
میں نے کہا ۔۔ ” بھئی ماسٹر اور ٹیچر میں بہت فرق ہوتا ہے ۔
ماسٹر ہوتا ہے شلوار قمیض پہنے اوپر سے بند گلے کی واسکٹ ، سائیکل تھامے ، ہینڈل پر تھیلا لٹکائے ۔
خواہ مخواہ بچوں کو پڑھاتا رہتا ہے ۔ ٹیوشن نہیں پڑھاتا ۔
اب ٹیچر کے بارے میں تو تم ہی بتا سکتے ہو ہو کہ ٹیچر کیا ہوتا ہے ۔ ؟
” ابو ہمارا ٹیچر تو سوٹ پہنتا ہے اور اس کے پاس مائیکل جیکسن کی ڈھیر ساری کیسٹس ہیں ۔ “
” بس یہی فرق ہے ماسٹر اور ٹیچر میں “
آٹھویں جماعت میں ہمارے حساب کے استاد ماسٹر نادر خان تھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دراصل نادر شاہ ہیں ۔
ورینکلر فائنل کا امتحان سر پر آیا تو ماسٹر نادر خان کو بخار چڑھ گیا وہ دن رات ایک کر کے طالب علموں کو پڑھانے لگے ۔ رات کی کلاسیں اس طرح شروع ہوئیں کہ ایک روز ماسٹر صاحب نے چھٹی کے وقت حکم دیا کہ آج سے تمام لڑکے شام کا کھانا کھا کر سیدھے اسکول آئیں اور یہاں پر تین گھنٹے مزید پڑھائی ہو گی ۔
میں کھڑا ہو گیا :
” جناب ماسٹر صاحب جیسا کہ آپ جانتے ہی آج کل سردیوں کا زمانہ ہے سردی بہت ہے ہم چھوٹے چھوٹے بچے کس طرح اسکول پہنچیں گے “
” نہیں پہنچیں گے تو اگلے دن بیس بیس بید کھائیں گے چھوٹے چھوٹے بچے ” ۔۔۔ ماسٹر صاحب گرج کر بولے ۔
” میں جی پھر کمبل لے آؤں ساتھ ۔۔۔۔ ” میں نے گزارش کی ۔
” تو کمبل چھوڑ رضائی لے آنا ۔۔۔۔ پر آ جانا ورنہ ۔۔۔۔” وہ بھنا گئے ۔
اس شام کھانے کے بعد میں نے گھر کی سب سے طویل و عریض رضائی سائکل کے کیرئیر پر باندھی اور اسکول پہنچ گیا ۔ شام کی نشست کے لئے کمرے میں سے ڈیسک اور کرسیاں وغیرہ اٹھا کر صفیں بچھا دی گئی تھیں۔۔۔۔ اس لئے میں نے آرام سے ایک کونے میں رضائی رکھی اور اسے اوڑھ کر بڑے مزے سے ٹیک لگا کر براجمان ہو گیا ۔
ماسٹر نادر کمرے میں داخل ہوئے طالب علموں کی تعداد دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔ بلیک بورڈ صاف کر کے اس پر کچھ سوال لکھنے لگے تو ان کی نظر مجھ پر پڑی ۔
” اوئے تو حقہ پینے آیا ہے یہاں مستنصر ۔۔۔۔۔۔۔ یہ رضائی کس کی ہے ؟ “
میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے کہا :
” ماسٹر صاحب میری ہے اور آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ تو کمبل چھوڑ رضائی لے آنا ۔ “
ماسٹر صاحب کے چہرے کی رنگت بدلی دانت کچکچائے ۔۔۔لیکن وہ کچھ بولے نہیں اور نظریں نیچی کر کے پڑھانے لگے چونکہ سردی تو تھی اس لئے آہستہ آہستہ باقی لڑکوں کی ٹانگیں اور ہاتھ میری رضائی کی گرمی میں پہنچنے لگے تھوڑی دیر بعد نصف سے زیادہ کلاس میری رضائی سے لطف اندوز ہو رہی تھی ۔
اس موقع پر ماسٹر نادر خان نے بلیک بورڈ پر الجبرے کا ایک سوال لکھا :
” آہاں رضائی والے باو نکال یہ سوال “
اب ظاہر ہے یہ صریحاً خود کشی کی دعوت تھی میں نے رضائی کو اپنے آپ سے علیحدہ کیا اس سوال کو دیکھا جو میری موت تھا ۔ ماسٹر نادر کے ہاتھ میں پکڑے بید کو دیکھا جو میرا منتظر تھا اور بلیک بورڈ کی جانب آہستہ آہستہ قدم اٹھانے لگا یہی وہ لمحہ تھا جب پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت نوازش کو کمرے میں روشن بجلی کے واحد بلب کے بٹن کو آف کر دینا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ عین اس وقت جب میں تختہ دار پر چڑھنے کو تھا روشنی گل ہو گئی اور دھما چوکڑی مچ گئی ۔ ماسٹر صاحب اپنا بید اٹھائے اندھیرے میں ہی حساب کتاب لگاتے مجھ پر وار کرنے لگے لیکن میں واپس اپنی رضائی میں پہنچ چکا تھا جس کی دبیز تہیں میرے لئے ڈھال کا کام دے رہی تھیں ۔ اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیشتر لڑکے کھسکتے کھسکتے کلاس روم سے بھاگ گئے اور ان میں ، میں بھی شامل تھا اپنی رضائی سمیت ۔۔۔۔۔۔
بہت عرصے بعد ایک روز میری دکان پر ایک بوڑھا شخص آیا جس کی مونچھیں مردہ ہو چکی تھیں آواز میں تھرتھراہٹ تھی اور آنکھیں بجھ رہی تھیں میں نے ہاتھ آگے کیا تو اس نے مجھے گلے لگا لیا ۔
” مستنصر میں بڑے فخر سے لوگوں کو کہتا ہوں کہ تو میرا شاگرد ہے ” ۔۔میری آنکھوں میں نمی کی ہلکی تہہ اتر آئی ۔ یہ ماسٹر نادر خان تھے
ہاں ماسٹر اور ٹیچر میں بہت فرق ہوتا ہے ۔
مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ” گزارا نہیں ہوتا” سے اقتباس.🌹
منقول🔸