November 23, 2024

تحریر: قدیر قریشی
اگست 15، 2024

اردو، فارسی، انگریزی، جرمن، فرنچ، سنسکرت اور برصغیر اور وسطی ایشیا کی کم و بیش تمام زبانوں کا تعلق انڈویورپین زبانوں سے ہے- ان تمام زبانوں کی جد میسوپوٹیمیا (جدید عراق) کے علاقے کی قدیم زبان ہے- اس گرافک میں ان زبانوں کی تاریخ اور ان کا آپسی تعلق بیان کیا جگا ہے۔ یہ نقشہ تقریباً 3000 قبل مسیح سے 500 عیسوی تک کی قدیم دنیا میں ابتدائی تحریری نظام اور حروف تہجی کی ترقی اور پھیلاؤ کی عکاسی کرتا ہے۔

1۔ کیونیفارم سے تصویریں (3400 قبل مسیح سے 100 عیسوی):
ماہرین کے مطابق لکھنے کا آغاز سمیریا (جدید دور کے عراق) میں تصویروں پر مشتمل تحریری زبان سے ہوا۔ اسے کیونیفارم رسم الخط کہا جاتا ہے۔ میسوپوٹیمیا میں تین ہزار سال سے کیونیفارم کا وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس تحریر کے کچھ سیمپلز دریافت ہوئے ہیں اور حال ہی میں اس طرز تحریر کو ڈی کوڈ کر لیا گیا ہے

2۔ مصری ہایروگلیفس (3200 قبل مسیح سے 400 قبل مسیح):
مصر کے قدیم انداز تحریر کوئی ہائیروگلیفس کہا جاتا ہے جس میں تصویری علامتوں کو استعمال کر کے اپنا مدعا بیان کیا جاتا ہے۔ یہ رسم الخط قدیم مصری اہرام میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس انداز تحریر کو نہ صرف مذہبی کتابیں لکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا بلکہ بادشاہوں کے کارندے اس زبان کو حکومتی کاروبار مثلاً ٹیکس کا حساب رکھنے کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔ مصر کے اس انداز تحریر نے آس پاس کے علاقوں کی تحریر زبانوں کو بھی متاثر کیا- چنانچہ اناطولیہ ـموجودہ ترکی) میں بھی اس رسم الخط پر مبنی تحاریر دریافت ہوئی ہیں جو مٹی کی ٹیبلٹس پر لکھی گئی تھیں۔

3- پہلے حروف تہجی (1500-1050 قبل مسیح):
قدیم ترین حروف تہجی سامی زبان بولنے والے لوگوں نے تیار کیے جن میں پروٹو کنانائٹ اور فونیشین حروف تہجی شامل ہیں۔ یہ وہی علاقے ہیں جہاں بعد میں یہودیت، عیسائیت اور اسلام نے جنم لیا۔ یہ حروف تہجی مصری ہیروگلیفس کے ذیلی سیٹ سے اخذ کیے گئے تھے۔ یہ حروف تہجی بنیادی آوازین یعنی consonants اور حروف علت کی آوازیں (جیسے ‘الف’، ‘و’، ‘ی’، اور ‘ے’ کی آوازیں جو بنیادی آوازوں کو طول دینے کے لیے استعما ہوتی ہیں) ظاہر کرنے کے قابل تھے۔ تجارت اور مختلف قوموں کے سیاحوں کے ذریعے ان حروف تہجی سے لکھنے کا رواج بحیرہ روم کے ارد گرد وسیع پیمانے پر پھیل گیا۔

4- مغربی حروف تہجی (1050 BCE-25 CE):
فونیشین حروف تہجی نے بحیرہ روم کے دیگر رسم الخط کو متاثر کیا۔ یونانیوں نے فونیشین حروف کو اپنے حروف تہجی میں ڈھال لیا، جس کے نتیجے میں روم میں استعمال ہونے والے لاطینی اور Etruscan حروف تہجی نے جنم لیا۔ بہت سی جدید مغربی زبانوں کے رسم الخط کی بنیاد یونانی رسم الخط ہے۔

یہ گرافک ان جغرافیائی خطوں کو بھی دکھاتا ہے جہاں یہ مختلف تحریری نظام ابھرے اور وقت کے ساتھ ساتھ مختل علاقوں میں پھیلے۔ مثال کے طور پر، فونیشین حروف تہجی سے متاثر زبانیں بحیرہ روم سے منسلک علاقوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اٹلی اور یونان میں مروج رسم الخط فونیشن حروف تہجی سے ہی متاثر ہیں۔ مزید برآں، اس نقشے میں شمالی یورپ میں رونک حروف تہجی کی ترقی اور جنوبی عرب، ہندوستان اور ایتھوپیا میں حروف تہجی کی تاریخ بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

برصغیر میں وادی سندھ کی تہذیب میں تحریر کا باقاعدہ نظام موجود تھا جو سمیرین رسم الخط سے ارتقاء پذیر ہوا- موہنجو داڑو اور ہڑپہ سے ملنے والی تحاریر کو ماہرین ابھی تک ڈی کوڈ نہیں کر پائے ہیں- لیکن حال ہی میں ماہرین بابل کی قدیم تہذیب کی باقیات سے ملنے والی کچھ تحاریر کو ڈی کوڈ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں- اس کامیابی سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ اب ہڑپہ اور موہنجوداڑو سے ملنے والی تحاریر کو بھی ڈی کوڈ کیا جا سکے گا