September 16, 2024

سپریم کورٹ میں مبارک ثانی کیس کی سماعت جاری؛ مظاہرین بھی اسلام آباد میں جمع

سپریم کورٹ میں جمعرات کو مبارک احمد ثانی کی رہائی کے فیصلے کے خلاف وفاق کی متفرق درخواست کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔ تحفظِ ناموسِ رسالت نے اعلیٰ عدالت کے سامنے احتجاج کا اعلان کیا ہے جس کے کارکنان وفاقی دارالحکومت میں موجود ہیں۔

سپریم کورٹ نے مولانا فضل الرحمٰن، مفتی شیر محمد اور عدالت میں موجود علما سے معاونت لینے کا فیصلہ کیا۔

ابو الخیر محمد زبیر، جماعت اسلامی کے فرید پراچہ بھی عدالت کی معاونت کریں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے مفتی تقی عثمانی سے بھی معاونت کا کہا تھا، وہ ترکیہ میں ہیں۔

چیف جسٹس کے بقول عدالت نے مفتی منیب الرحمٰن کو آنے کی زحمت دی، وہ نہیں آئے۔

اس دوران مفتی منیب الرحمٰن کے نمائندے نے آگاہ کیا کہ مجھے مفتی منیب الرحمٰن نے مقرر کیا ہے۔

مفتی تقی عثمانی ترکیہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت میں شامل

پاکستان میں دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے معروف عالمِ دین مفتی تقی عثمانی ترکیہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں جاری مبارک احمد ثانی کیس کیہ سماعت میں شامل ہوئے۔

سماعت کے دوران عدالت نے لطیف کھوسہ اور صاحب زادہ حامد رضا کو بات کرنے سے روک دیا ۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ واضح کر رہے ہیں کہ کسی وکیل کو نہیں سنیں گے۔

تحریک انصاف کے رہنما اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ بطور رکن پارلیمان اور قائمہ کمیٹی ممبر لا اینڈ جسٹس پیش ہو رہا ہوں۔ صاحب زادہ حامد رضا کے نکتۂ اعتراض پر ہی سارا معاملہ شروع ہوا تھا۔

اس پر چیف جسٹس نے صاحب زادہ حامد رضا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ دیگر علماء سے بڑے ہیں؟

تو حامد رضا نے جواب دیا کہ درسِ نظامی کا فاضل ہوں، کسی سے بڑے ہونے یا برابری کا دعویٰ نہیں کرتا۔

اس پر چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں اور عدالتی کارروائی چلنے دیں۔

حامد رضا نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ عدالت کا پورا فیصلہ ہی غلط ہے۔ ہم چاہتے ہیں، پورا عدالتی فیصلہ ہی واپس لیا جائے۔

اس دوران ویڈیو لنک سے سماعت میں موجود مفتی تقی عثمانی نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے دو پیراگراف حذف کرنے کی استدعا کی۔

مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ پیراگراف نمبر سات اور 42 کو حذف کیا جائے۔

مفتی تقی عثمانی نے مقدمے سے دفعات ختم کرنے کے حکم میں بھی ترمیم کی استدعا کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت دفعات کا اطلاق ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ ٹرائل کورٹ پر چھوڑ دے۔

مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ اصلاح کھلے دل کے ساتھ کرنی چاہیے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالے دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالت نے لکھا ہے کہ قا۔۔۔ دیانی مبارک ثانی نجی تعلیمی ادارے میں استاد تھا۔ گویا عدالت نے تسلیم کر لیا کہ قاد۔۔۔ یانی تعلیمی ادارے بنا سکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ قاد ۔۔۔ یانی بند کمرے میں تبلیغ کر سکتے ہیں، جب کہ قانون کے مطابق ان کو تبلیغ کی کسی صورت اجازت نہیں ہے۔ عدالت نے سیکشن 298 سی کو مدِ نظر نہیں رکھا۔

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر ہم وضاحت کر دیں تو کیا یہ کافی ہوگا؟

تو مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ عدالت وضاحت کے بجائے فیصلے کے متعلقہ حصے کو حذف کرے۔

مبارک ثانی کیس: ’اگر ہم سے غلطی ہو جائے تو اصلاح بھی ہونی چاہے‘

مبارک ثانی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو یہ درخواست پارلیمنٹ نے لانے کی ہدایت کی؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے اپیل دائر کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جب کہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ ایاز صادق نے خط لکھا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انسان قول و فعل سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کی ہر بات سر آنکھوں پر ہے۔ اچھی بات ہے، پارلیمنٹ نے آپ کو حکم دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میری نماز میں ایک ہی دعا ہوتی ہے کہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ ہو۔ کبھی کوئی غلطی ہو تو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جنہوں نے نظرِ ثانی کی درخواست دائر کی ہے، ان کا شکریہ ادا کیا۔

ان کے بقول اگر ہم سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس کی اصلاح بھی ہونی چاہے۔