بدھا یا ذوالکپل یا ذوالکفل ایک شہزادہ تھا بہت سارے علماء کا خیال ہے کہ وہ ایک پیغمبر تھا کیونکہ عربی میں لفظ “پ” نہیں ہوتا اس لئے اسے “ف” پڑھا جاتا ہے۔ اور قرآن میں ذوالکفل پیغمبر کا ذکر ہے اور وہ یہی تھے۔ کیونکہ بدھا کا بھی بیان یہ تھا کہ میرے بعد دنیا کی ایک عظیم ترین شخصیت اس دنیا میں آئی گی جو امن لائیں گیں یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیشنگوئی کی تھی۔ اللّہ نے ہر قوم یا علاقے کیلئے ایک پیغمبر بھیجا تھا اور برصغیر کیلئے ذوالکفل (چونکہ بدھ مت کی تعلیمات دیتا تھا اس لئے اسے بدھا کہا جاتا تھا) کو بنا کر بھیجا گیا۔
کپل محل کو کہتے ہیں اور ذول کا مطلب ہے تین کیونکہ وہ بادشاہ کا بیٹا تھا اور اس کے رہنے کیلئے تین محل بنائے گئے تھے ایک گرمی کیلئے دوسرا سردی کیلئے اور تیسرا درمیانے موسم کیلئے اس لئے اس کو ذوالکفل یعنی 3 تین محل والا کہا جاتا تھا۔
بدھا نے یہ تمام آسائشیں چھوڑ کر لوگوں کے دکھ کو سمجھنے کیلئے محل سے نکل پڑا تھا اور اس نے ایک پیڑ یعنی درخت کے نیچے عبادت کرنا شروع کردی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے اور ممکن ہے کہ غلط بھی ہو سکتا ہے
کہ یہ پشاور کا علاقہ “بڈھا بیر” اصل میں “بدھا پیڑ” ہے
یعنی بدھا جس پیڑ کے نیچے بیٹھ کر گایان یا عبادت کیا کرتا تھا وہ یہ جگہ تھی اس لئے اسے بدھا پیڑ کہا جاتا اور وقت کے ساتھ ساتھ بدل کر بڈھا بیر بن گیا۔ اور موجودہ پشاور کا نام پورش تھا یعنی بدھ مت ذبان میں مطلب شہر اب اس کو پشاور کہتے ہیں۔
اب اس بارے میں جاننے کی کوشش کی جائے تو پشاور میوزیم میں سب سے ذیادہ نوادرات بدھا ہی کی ملتی ہیں، پشاور میں رحمان بابا قبرستان کے اندر میرے والدین کی قبروں کے درمیان ایک سٹوپا ہوا کرتا ہے جو 2,3 سال قبل گرا دیا گیا، اسٹوپا اصل میں بدھ مت کے عبادت گاہ ہوا کرتی تھیں، پھر مزید یہ کہ اصل میں ان تمام علاقوں میں لوگ ہندوؤں کی تعداد زیادہ تھی چھوٹے قد کہ اور کالی رنگت والے (جبکہ گوری رنگت اور سبز آنکھوں والے رائل پٹھان ہیں ) اور یہاں غریب اور مجبور ہندو اونچی ذات کے ہندوؤں کے ظلم سہتے تھے جس پر بدھا کو تکلیف ہوتی اور اس نے بدھ مت کا مہذب متعارف کروایا اور وہ مقامی ہندو بدھ مت کے مہذب میں داخل ہوکر ذات پات سے جان چھڑانے لگے اور پھر بدھا کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے حضور پاک کا پیغام ملتے ہی جوق در جوق مسلمان ہوئے، لہذا یہ علاقہ بدھا کا مرکز رہا اور پھر قندھارا تہذیب کا مرکز، یہ افغانستان کا صوبہ قندھار بھی اسی قندھارا تہذیب پر رکھا گیا اور آپ یاد ہو کہ 1996 میں افغانستان کے صوبہ بامیان میں بدھا کہ دنیا میں سب سے بڑے سٹیجو دریافت ہوئے تھے جسے طالبان نے توڑ کر ختم کئے تھے۔
مزید اگر آپ پشاور کے 80 سے زائد گاؤں جن کو “خالصہ” کھا جاتا ہے اور خالصہ کا بدھ مت میں مطلب ہے “پاک”.
اگر تھوڑا مزید آگے چلیں تو چارسدہ/مردان کے علاقہ تخت بائی میں موجود بدھا کی ہیرج آج بھی موجود ہے جسے اقوام متحدہ نے 1980 میں قبول کیا تھا۔
یہ بدھا یا بدھ مت کیلئے یونیورسٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہ ہے ہماری تاریخ یعنی ہمارے آبا واجداد پہلے ہندو تھے پھر بدھ مت ہوئے پھر اب آخر میں آکر مسلمان اس لئے اس خطہ کی ذبان ہندکو تھی اور علاقے کہ لوگ ہندکووان ۔
تحریر
ڈاکٹر محمد سقاف یاسرخان ایڈووکیٹ
چیئرمین و بانی
پاکستان ہندکووان تحریک