October 9, 2024
پیجر

تائیوان کی کمپنی گولڈ اپالو نے 1995 میں پیجر کے نام سے ایک ڈیوائس بنانا شروع کی‘یہ ٹیلی فون کی دوسری اور موبائل فون کی ابتدائی اسٹیج تھی‘ پیجر چھوٹی سی پاکٹ سائز ڈیوائس تھی‘ لوگ اسے جیب میں رکھ کر پھرتے رہتے تھے‘ لوگ اس کے ذریعے ایک دوسرے کو سو لفظوں کا ٹیکسٹ میسج بھجوا سکتے تھے‘ یہ ایس ایم ایس اور ٹیکسٹ میسج کی ابتدائی اسٹیج تھی۔
انیس سو نوے کی دہائی میں پاکستان میں بھی پیجر استعمال ہوتا تھا اور میں خود بھی اسے استعمال کرتا تھا لیکن پھر موبائل فون آ گیا اور یہ پیجر کوکھا گیا تاہم خفیہ اداروں‘ میڈیکل سروسز اور اسپورٹس میں یہ ٹیکنالوجی استعمال ہوتی رہی‘ اس کی دو وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ پیجر کے لیے انٹرنیٹ یا وائی فائی ضروری نہیں ہوتا لہٰذا یہ ان جگہوں پر بھی کام کرتا ہے جہاں انٹرنیٹ کی رسائی نہیں ہوتی اور دوسرا یہ موبائل فون کے مقابلے میں محفوظ ذریعہ ہے۔
موبائل فون کا ڈیٹا چوری کرنا اور اس کے ذریعے جاسوسی آسان ہے جب کہ پیجر میں یہ ممکن نہیں تھا چناں چہ یہ 17 ستمبر 2024 تک دنیا میں استعمال ہوتا تھا‘ پیجرز دنیا میں دو جگہوں پر بنتا ہے‘ تائیوان میں اسے گولڈ اپالو بناتی ہے اور یورپ میں اسے ہنگری کی کمپنی بی اے سی کی کنسلٹنگ کے ایف ٹی بناتی ہے‘ اس کے پاس گولڈ اپالو کی فرنچائز ہے‘ لبنان اور شام میں حزب اللہ‘ غزہ اور فلسطین میں حماس اور ایران میں پاس داران کے اہم ترین لوگ پیجر استعمال کرتے ہیں‘ دنیا کی باقی خفیہ ایجنسیوں میں بھی یہ ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے۔
اسرائیل نے 1995 میں حماس کے ایک بم میکر یحییٰ عیاش کو موبائل فون میں بم لگا کر قتل کر دیا تھا جس کے بعد حماس نے موبائل کا استعمال ترک کر دیا تھا‘ غزہ پر اسرائیل کے حالیہ حملوں کے بعد حماس اور حزب اللہ نے اپنا نیٹ ورک مکمل طور پر موبائل فون سے پیجر پرمنتقل کر دیا جس کے بعد اچانک پیجر کی فروخت میں اضافہ ہو گیا‘ آن لائین ویب سائیٹس پر دھڑا دھڑ آرڈرز آنے لگے‘ ہنگری کی ’’کے ایف ٹی‘‘ کو پچھلے چھ ماہ میں ساڑھے دس ہزار ڈیوائسز کے آرڈرز آ گئے۔
اب دنیا کی تمام بڑی ویب سائیٹس‘ آئی ٹی پراڈکٹس اور انٹرنیٹ کمپنیاں اسرائیلی ہیں یا ان کے سی ای اوز یہودی ہیں یا پھر یہ اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کی نگرانی میں ہیں‘ پیجر کی سیل میں اضافہ موساد سے خفیہ نہ رہ سکا‘ یہ لوگ جانتے تھے حماس‘ حزب اللہ اور پاس داران پیجر استعمال کرتے ہیں چناں چہ موساد نے آن لائین چیکنگ شروع کر دی اور یہ بہت جلد جڑ تک پہنچ گئے‘ اس کے بعد دو امکانات ہیں‘ پہلا امکان ہنگری میں قائم ’’کے ایف ٹی‘‘ کمپنی موساد کے لوگ چلا رہے تھے‘ ان لوگوں نے پیجر کے اندر ’’منی بم‘‘ لگا کر ڈیوائسز حزب اللہ کو پہنچا دیں اور دوسرا امکان موساد نے ڈیلیوری کے دوران تمام پیجرز پورٹ سے اٹھا لیے اور منی بم یا خطرناک ڈیوائس لگا کر یہ پورٹ کے ذریعے حزب اللہ کو ڈیلیور کرا دیے۔
بہرحال پیجرز متعلقہ لوگوں کے پاس پہنچے اور یہ انھیں استعمال کرتے رہے لیکن پھر 17ستمبرکی سہ پہرساڑھے تین بجے لبنان میں حزب اللہ کے لیے کام کرنے والے تین ہزار لوگوں کو بیک وقت ایک پیغام ملا‘ انھوں نے ڈیوائس کھولی اور تمام پیجرز ان کے ہاتھوں میں پھٹ گئے جس کے نتیجے میں13 افراد ہلاک اور2800 زخمی ہو گئے‘ 18 ستمبرکو لبنان میں ہی واکی ٹاکیز کے ذریعے بھی دھماکے ہوئے جن میں20 لوگ انتقال کر گئے جب کہ 450 شدید زخمی ہو گئے‘ بدھ کے دن ان لوگوں کی نماز جنازہ تھی‘ نماز جنازہ کے دوران مزید دو دھماکے ہوئے اورچارلوگ قبرستان میں کھڑے کھڑے فوت ہو گئے جب کہ متعدد افرادشدید زخمی ہو گئے۔
لبنان کے لوگ ابھی اس صورت حال پر حیران تھے کہ اچانک واکی ٹاکیز بھی پھٹنے لگے‘ واکی ٹاکی دوسری جنگ عظم کے دوران کینیڈا کے سائنس دان ڈونلڈ ہنگز (Donald Hings) نے بنائی تھی اور اسے موٹرولا نے 1940 میں لانچ کیا تھا‘ دنیا بھر کی افواج اور سیکیورٹی ادارے واکی ٹاکی استعمال کرتے ہیں‘یہ بھی لبنان میں پھٹنے لگے‘ حزب اللہ نے واکی ٹاکیز جاپانی فرم سے خریدے تھے‘ حملوں کے بعد جاپانی فرم نے انکشاف کیا ہم نے 14 سال پہلے یہ برینڈ بند کر دیا تھا اور ہم نے اس وقت اس کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔
پتا چلا حماس اور حزب اللہ کو واکی ٹاکی بھی موساد کی ایک کمپنی بیچتی رہی تھی اور ان میں بھی ’’منی بم‘‘ لگے ہوئے تھے‘ اس کے بعد ملک میں سولر پلیٹس اور الیکٹرک موٹر سائیکل بھی پھٹنے لگے‘ آخری اطلاعات تک لبنان میں 33 لوگ مارے جا چکے ہیں اور چارہزارشدید زخمی ہیں‘ اسپتالوں میں زخمیوں کے علاج کے لیے جگہ موجود نہیں ہے‘ دوسری طرف اسرائیل کے آرمی چیف ہیرزی حلوی نے دھماکوںکے اگلے دن اعلان کیا’’ یہ اس ٹیکنالوجی کا دو فیصد بھی نہیں جو اس وقت ہمارے پاس موجود ہے‘‘ اس اعلان کے بعد پوری دنیا خوف کا شکار ہوگئی۔

ہم اب آتے ہیں ٹیکنالوجی کی طرف‘ دنیا بھر کی تمام ڈیوائسز میں لیتھیم کی بیٹریاں استعمال ہو رہی ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ وزن اور سائز میں بھی چھوٹی ہوتی ہیں‘ یہ بہت جلد چارج ہو جاتی ہیں اور یہ زیادہ وقت تک چلتی بھی رہتی ہیں لہٰذا موبائل فون سے لے کر الیکٹرک کارز تک دنیا کی 80 فیصد ڈیوائسز میں یہ بیٹریاں استعمال ہوتی ہیں‘ جہازوں اور نیوکلیئر پلانٹس میں بھی یہی ہوتی ہیں اور سولر سسٹم میں بھی اور لیتھیم پورا پورا بم ہوتی ہے‘ یہ جب بھی پھٹتی ہے تو تباہی مچا دیتی ہے۔
موبائل فونز میں سب سے پہلے سام سنگ نے 2016 میں نوٹ سیون میں لیتھیم بیٹریاں استعمال کی تھیں اور یہ پھٹنا شروع ہو گئی تھیں لہٰذا کمپنی نے پوری دنیا سے نوٹ سیون فون واپس لے لیے تھے‘ 2016 میں ہوور بورڈز (Hover Boards) کی بیٹریاں بھی پھٹنے لگی تھیں اور اس زمانے میں الیکٹرک کارز کی بیٹریاں بھی بلاسٹ کر گئی تھیں‘ بہرحال بیٹریوں کو دوبارہ ٹھیک کیا گیا اور اس کے بعد یہ ایشو کنٹرول ہو گیا۔
لیکن لبنان اور شام میں پیجرز‘ واکی ٹاکیز اور سولر سسٹم پھٹنے کے بعد پوری دنیا پریشان ہو گئی ہے‘ اس پریشانی کی تین وجوہات ہیں‘ نمبر ایک‘ دنیا میں اب الیکٹرانکس ڈیوائسز محفوظ نہیں ہیں‘ کوئی بھی ملک یا ایجنسی کسی بھی وقت کسی بھی پارسل یا شپ منٹ کو راستے سے ہائی جیک کر کے اس کے اندر کوئی بھی نئی ڈیوائس پلانٹ کر سکتی ہے چناں چہ دنیا بھر کے سربراہان مملکت‘ آرمی چیفس‘ خفیہ اداروں کے سربراہان اور سائنس دانوں کو ان کے زیر استعمال گیجٹس کے ذریعے قتل کیا جا سکتا ہے۔
لبنان کے دھماکوں کے بعد یہ بحث بھی چل رہی ہے شاید 19 مئی 2024 کو ایرانی صدربراہیم رئیسی بھی پیجر دھماکے میں قتل ہوئے ہوں کیوں کہ وہ بھی پیجر استعمال کرتے تھے‘ نمبر دو‘ یہ فیصلہ ابھی نہیں ہوا کہ یہ دھماکے ہارڈ ویئر کی وجہ سے ہوئے یا سافٹ ویئر کی بدولت اگر یہ ہارڈ وئیر تھا تو اس کا مطلب ہے اسرائیل نے دس گرام کے ایسے بم بنا لیے ہیں جو پیجر جیسی چھوٹی ڈیوائسز میں نصب ہو سکتے ہیں اور یہ ایران کے صدر کا ہیلی کاپٹر بھی گرا سکتے ہیں اور لبنان کی طرح کسی بھی ملک میں تباہی بھی مچا سکتے ہیں اور اگر یہ ہارڈ وئیر کے بجائے سافٹ وئیر کے ذریعے ہوا ہے تو پھر پوری دنیا کو ڈر جانا چاہیے کیوں کہ کوئی بھی ایجنسی کسی بھی برینڈ کے موبائل فونز میں سافٹ ویئر کے ذریعے لیتھیم کی بیٹری کو بم بنا سکتی ہے۔
دنیا میں اس وقت صرف ایکٹوآئی فونز کی تعداد ایک ارب 46 کروڑ ہے اور یہ سب چلتے پھرتے بم ہیں بس ایک میسج کی دیر ہے اور ڈیڑھ ارب آئی فون پھٹ جائیں گے اور دنیا میں تباہی مچ جائے گی اور یہ صرف ایک فون برینڈ کی صورت حال ہے جب کہ آپ اگر الیکٹرک موٹر سائیکلز‘ الیکٹرک کارز‘ ہوم اپلائنسز‘ سولر سسٹم‘ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپس کو بھی اس میں شامل کر لیں تو پوری دنیا کی تباہی کے لیے ایک کمانڈ کافی ہو گی اور نمبر تین اسرائیلی آرمی نے دھماکوں کے بعد دھمکی دی’’ہمارے پاس بہت صلاحیتیں ہیں جو ہم نے ابھی فعال نہیں کیں‘ ہمارا پلان مرحلہ وار ہے اور ہر مرحلے پر حزب اللہ بڑی قیمت چکائے گی‘‘
اس دھمکی نے دنیا کو مزید پریشان کر دیا ہے کیوں کہ دنیا کے تمام ڈیفنس سسٹم کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ اور سیٹلائیٹ سے منسلک ہیں‘ سول ایوی ایشن‘ بجلی کی ترسیل کا نظام‘ ٹرینیں اوردنیا بھر کا بینکنگ نظام بھی سافٹ ویئرز اور انٹرنیٹ سے چل رہا ہے اور اگر اسرائیل کے پاس ان سب کو سبوتاژ کرنے کی ٹیکنالوجی موجود ہے تو یہ کسی بھی وقت پوری دنیا میں خوف ناک دھماکے کر سکتے ہیں‘ یہ اگر کچھ بھی نہ کریں اور صرف عرب ملکوں کا بینکنگ سسٹم بٹھا دیں یا تیل کے کنوؤںمیں آگ لگا دیںیا ایران کے ایٹمی پلانٹ میں دھماکے کر دیں تودنیا کا کیا بنے گا؟آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔
ہم اب مسلم ورلڈ کی طرف آتے ہیں‘ دنیا میں 57 اسلامی ملک اور ایک ارب 90 کروڑمسلمان ہیں لیکن ہم نے کیوں کہ پچھلے ہزار سالوں میں دنیا کے دستر خوان پر حرام خوری کے سوا کچھ نہیں کیا لہٰذا ہم پوری دنیا میں جوتے کھا رہے ہیں‘ غزہ میں ایک لاکھ لوگ مر چکے ہیں اور 8 لاکھ زخمی ہیں اوراب لوگ لبنان میں فونز کو دور رکھ کر بیٹھے ہیں‘ یہ ٹیلی ویژن بھی آن نہیں کر رہے ہیں جب کہ ہمارے مقابلے میں 93 لاکھ آبادی کااسرائیل پوری دنیا کے وسائل جیب میں ڈال کر پھر رہا ہے۔

یہ ایک میسج بھجواتا ہے اور لبنان اور شام میں چار ہزار پیجرز اور واکی ٹاکیز پھٹ جاتے ہیں اور لوگ زخمی حالت میں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر پڑے ہوتے ہیں اور اسپتالوں میں زخمیوں کے علاج کی گنجائش نہیں ہوتی اور یہ ہماری کم عقلی‘ نالائقی اور جہالت کی سزا ہے اور ہم اگر اب بھی نہ سنبھلے‘ ہم نے اگر اب بھی اپنی لیبارٹریاں‘ درس گاہیں اور لائبریریاں نہ کھولیں تو پھر ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں مسلمانوں کے پاس شودر بننے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچے گا‘ ہم غزہ جیسی صورت حال کا نشانہ بن کر اپنا نشان تک مٹا بیٹھیں گے۔