تعارف:
کوہ نور، جس کا مطلب فارسی میں “روشنی کا پہاڑ” ہے، دنیا کے سب سے مشہور اور تاریخی ہیرے میں سے ایک ہے۔ یہ ہیرا نہ صرف اپنی خوبصورتی اور قیمتی ہونے کی وجہ سے مشہور ہے بلکہ اس کی تاریخی اہمیت اور اس کے حصول کے لیے ہونے والے تنازعات بھی اسے ایک منفرد حیثیت دیتے ہیں۔ کوہ نور کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے اور یہ مختلف سلطنتوں اور حکمرانوں کے درمیان کئی بار منتقل ہوا، جس کی وجہ سے یہ آج تک دنیا کی تاریخ کا حصہ بنا ہوا ہے۔
ابتدائی تاریخ:
کوہ نور کی تاریخ کا آغاز قدیم ہندوستان سے ہوتا ہے جہاں یہ ہیرا صدیوں تک مختلف بادشاہوں کے تاج میں سجا رہا۔ اس کی پہلی تصدیق شدہ تاریخ تیرہویں صدی کی ہے جب یہ ہیرا جنوبی ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے حکمرانوں کی ملکیت تھا۔ یہ ہیرا ایک وقت میں سلطنتِ گولکنڈہ کے قبضے میں تھا، جو کہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ہیروں کا مرکز تھا۔
مغل دور اور شاہجہان کا تختِ طاؤس:
کوہ نور کی کہانی میں اہم موڑ تب آیا جب مغل بادشاہوں نے ہندوستان پر حکومت شروع کی۔ مغل بادشاہ بابر کے دور میں یہ ہیرا مغل سلطنت کا حصہ بنا اور اسے شاہی خزانے میں شامل کیا گیا۔ مغل شہنشاہ شاہجہان نے کوہ نور کو اپنے تخت طاؤس (مور کا تخت) میں نصب کرایا، جس سے اس کی اہمیت اور بڑھ گئی۔ یہ تخت اپنے آپ میں ایک شاہکار تھا، جس پر کئی قیمتی جواہرات اور ہیرے جڑے ہوئے تھے، لیکن کوہ نور ان سب میں سب سے زیادہ نمایاں تھا۔
نادر شاہ اور کوہ نور کی ایران منتقلی:
1739 میں ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور دہلی پر قبضہ کر لیا۔ مغل سلطنت کی دولت لوٹتے ہوئے نادر شاہ کو کوہ نور ہیرے کا علم ہوا اور اس نے اسے اپنے خزانے کا حصہ بنا لیا۔ مشہور کہاوت کے مطابق، جب نادر شاہ نے پہلی بار کوہ نور کو دیکھا تو اس نے کہا، “یہ روشنی کا پہاڑ ہے!” جس سے اس ہیرے کا نام کوہ نور پڑ گیا۔ نادر شاہ کی وفات کے بعد، یہ ہیرا افغانستان کے بادشاہوں کے پاس چلا گیا۔
پنجاب اور مہاراجہ رنجیت سنگھ:
کوہ نور ہیرے کی اگلی بڑی منتقلی اس وقت ہوئی جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب کی سلطنت قائم کی۔ 19ویں صدی کے آغاز میں یہ ہیرا پنجاب کی ریاست کا حصہ بنا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے تاج میں نصب کیا گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد، پنجاب کی سلطنت کمزور ہو گئی اور برطانوی سامراج نے اس پر قبضہ کر لیا۔
برطانوی دور اور ملکہ وکٹوریہ:
1849 میں جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب پر قبضہ کیا، تو کوہ نور بھی برطانوی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ یہ ہیرا سرکاری طور پر برطانوی خزانے میں شامل کیا گیا اور اسے 1850 میں ملکہ وکٹوریہ کو پیش کیا گیا۔ کوہ نور کو بعد ازاں برطانوی شاہی تاج کا حصہ بنا دیا گیا اور آج یہ ہیرا لندن کے ٹاور آف لندن میں رکھا گیا ہے جہاں یہ عوام کے لئے نمائش پر موجود ہے۔
تنازع اور واپسی کا مطالبہ:
کوہ نور کی ملکیت کے حوالے سے آج بھی تنازع جاری ہے۔ ہندوستان، پاکستان، ایران، اور افغانستان جیسے ممالک اس ہیرے پر دعویٰ کرتے ہیں اور اسے اپنے وطن واپس لانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ خاص طور پر ہندوستانی حکومت اور عوام کا کہنا ہے کہ کوہ نور ان کی قومی وراثت کا حصہ ہے اور اسے واپس کیا جانا چاہیے۔
برطانوی حکومت کا موقف ہے کہ کوہ نور قانونی طور پر برطانوی سلطنت کا حصہ بنا اور اس کی واپسی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس حوالے سے کئی بین الاقوامی مہمات چلائی گئی ہیں، لیکن تاحال یہ ہیرا برطانوی شاہی تاج کا حصہ بنا ہوا ہے۔
کوہ نور کی خصوصیات:
کوہ نور کا وزن تاریخی طور پر 793 قیراط تھا جب اسے پہلی بار نکالا گیا، لیکن برطانیہ پہنچنے کے بعد، اسے تراش کر اس کا وزن کم کر کے 105.6 قیراط کر دیا گیا تاکہ اس کی چمک اور خوبصورتی میں اضافہ کیا جا سکے۔ یہ ہیرا بے رنگ ہے اور اس کی تراشیدگی نے اسے مزید دلکش بنا دیا ہے۔
افسانے اور عقائد:
کوہ نور کے بارے میں بہت سے افسانے اور عقائد بھی مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ہیرا جس مرد کے پاس ہوگا، اسے بے پناہ طاقت اور دولت حاصل ہوگی، لیکن اس کے ساتھ ہی اس پر بدقسمتی کا سایہ بھی ہوگا۔ اسی لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کوہ نور کو صرف خواتین حکمرانوں کے پاس ہونا چاہیے، کیونکہ مرد حکمرانوں کے لیے یہ بدقسمتی کا باعث بن سکتا ہے۔
نتیجہ:
کوہ نور ہیرا نہ صرف ایک قیمتی جواہر ہے بلکہ یہ تاریخ کی ایک علامت بھی ہے جو صدیوں سے مختلف سلطنتوں، بادشاہوں، اور حکمرانوں کے درمیان منتقل ہوتا رہا ہے۔ اس کی تاریخ طاقت، دولت، اور فتح کی علامت ہے، اور آج بھی یہ دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ کوہ نور کی واپسی کے حوالے سے جاری تنازعات نے اسے مزید اہم بنا دیا ہے، اور یہ ہیرے کی تاریخی حیثیت کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھے گا۔