اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہوتے ہیں تو توقع ہے کہ ان کی حکمرانی، ترجیحات اور اندازِ حکومت ان کے پہلے دورِ صدارت (2017-2021) سے کافی مختلف ہوگا۔ ٹرمپ کے بیانات، سیاسی ماحول میں تبدیلی اور ان کے موجودہ سیاسی نظریات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان کے ممکنہ دوسرے دورِ صدارت کی کچھ اہم خصوصیات یہ ہوسکتی ہیں:
- انتخابی دباؤ کے بغیر زیادہ جارحانہ پالیسیوں کا نفاذ
- دوبارہ انتخاب کی فکر نہیں: دوبارہ منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ کو انتخابی نتائج کی پرواہ نہیں ہوگی، جس کے باعث وہ اپنی پالیسیوں کو زیادہ بے باک اور جارحانہ انداز میں آگے بڑھا سکتے ہیں۔ پہلے دور میں بہت سی پالیسیاں انتخابی ردعمل کے خوف سے نرم کی گئی تھیں، لیکن دوسرے دور میں وہ سیاسی نتائج کی پرواہ کیے بغیر کام کرسکتے ہیں۔
- مخالفین کو نشانہ بنانا: ٹرمپ نے بارہا اپنی حکومت میں “ڈیپ اسٹیٹ” کو ختم کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے اور اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ حکومتی طاقت کا استعمال اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کریں گے۔ اس سے سرکاری اداروں کی سیاست میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
- سرکاری اداروں میں تبدیلیاں
- بیوروکریسی کی تشکیل نو: ٹرمپ اور ان کے حامیوں نے سرکاری بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا منصوبہ بنایا ہے۔ خاص طور پر محکمہ انصاف، ایف بی آئی، اور انٹیلی جنس اداروں میں وفادار افراد کو تعینات کیا جائے گا تاکہ حکومت پر زیادہ کنٹرول حاصل کیا جاسکے۔
- “شیڈول ایف” ایگزیکٹو آرڈر: اپنے دوسرے دور میں، ٹرمپ “شیڈول ایف” اقدام کو بحال اور وسعت دینا چاہتے ہیں، جس سے ہزاروں وفاقی ملازمین کو پالیسی سے متعلق عہدوں سے برطرف کیا جاسکے گا۔ اس سے انہیں وفاقی عملے پر زیادہ اختیار حاصل ہوگا۔
- خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں
- امریکہ فرسٹ 2.0: ٹرمپ دوبارہ “امریکہ فرسٹ” ایجنڈے پر زور دیں گے، جس میں قوم پرستی، معاشی تحفظ، اور بین الاقوامی مداخلت میں کمی شامل ہے۔ ان کی توجہ تجارتی معاہدوں کی دوبارہ مذاکرات، امیگریشن پر قابو پانے، اور بین الاقوامی تنظیموں جیسے نیٹو سے دوری پر ہوگی۔
- چین اور روس کے ساتھ تعلقات: ٹرمپ روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں جبکہ چین کے معاملے پر سخت گیر مؤقف جاری رکھیں گے، جس میں مزید ٹیرف، اقتصادی علیحدگی، اور مسابقت شامل ہے۔
- مشرق وسطیٰ کی حکمت عملی: وہ اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے “ابراہم معاہدے” کو وسعت دینے کی کوشش کریں گے، جبکہ مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی موجودگی کو کم کرنے پر بھی غور کریں گے۔
- معاشی پالیسیاں اور ڈی ریگولیشن
- قوانین میں نرمی: توقع ہے کہ وہ وفاقی قوانین میں مزید کمی کریں گے، خاص طور پر ماحولیاتی اور محنت قوانین میں، تاکہ معاشی ترقی کو تیز کیا جا سکے۔
- ٹیکس اصلاحات: 2017 میں پہلے ہی بڑی ٹیکس اصلاحات کی جا چکی ہیں، لیکن ٹرمپ مزید ٹیکس کٹوتیوں کی کوشش کر سکتے ہیں، خاص طور پر متوسط طبقے اور کاروباروں کے لیے۔
- تجارتی جنگیں: ٹرمپ دوبارہ چین اور یورپی یونین کے ساتھ تجارتی تنازعات کو ہوا دے سکتے ہیں تاکہ مینوفیکچرنگ کے شعبے کو واپس امریکہ میں لایا جائے، چاہے اس سے معاشی عدم استحکام پیدا ہو۔
- ثقافتی اور سماجی مسائل پر سخت مؤقف
- سماجی پالیسیوں پر سخت مؤقف: دوسرے دور میں ٹرمپ زیادہ شدت سے سماجی اور ثقافتی جنگوں میں حصہ لے سکتے ہیں، جن میں تعلیمی نظام، صنفی شناخت، اور سماجی انصاف کے معاملات شامل ہیں۔
- سپریم کورٹ پر اثر: چونکہ سپریم کورٹ میں پہلے ہی قدامت پسند اکثریت ہے، ٹرمپ مزید قدامت پسند ججز کی تعیناتی کے ذریعے عدلیہ پر مزید کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، خاص طور پر وفاقی عدالتوں میں۔
- امیگریشن اور سرحدی سلامتی
- زیرو ٹالرنس پالیسی: توقع ہے کہ ٹرمپ سرحدی نفاذ کے قوانین کو مزید سخت کریں گے، جس میں خاندانی علیحدگی، بے دخلی میں اضافہ، اور سرحدی دیوار کی تعمیر کو مزید تیز کرنا شامل ہے۔
- برتری کی شہریت کا خاتمہ: انہوں نے پہلے بھی برتری کی شہریت ختم کرنے کا عندیہ دیا تھا، حالانکہ یہ آئینی چیلنجز کا سامنا کرے گا۔
- میڈیا اور ٹیکنالوجی کمپنیوں سے نمٹنا
- سوشل میڈیا ریگولیشن: ٹرمپ بڑی ٹیک کمپنیوں جیسے فیس بک، گوگل، اور ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کی طاقت کو کم کرنے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی کوشش کر سکتے ہیں، جس میں سیکشن 230 کی اصلاح بھی شامل ہے۔
- متبادل میڈیا نظام: ٹرمپ اپنے پلیٹ فارم جیسے ٹروتھ سوشل پر اپنی موجودگی کو مزید مضبوط کر سکتے ہیں تاکہ روایتی میڈیا کو نظرانداز کرکے براہ راست اپنے حمایتیوں سے بات کرسکیں۔
- داخلی بدامنی سے نمٹنا
- قانون اور نظام کی پالیسی: پہلے دور میں سوشل موومنٹس اور احتجاجات کے دوران ٹرمپ کا مؤقف اکثر “قانون اور نظام” کی بحالی پر تھا۔ دوسرے دور میں، احتجاجات پر زیادہ سخت ردعمل کی توقع کی جا سکتی ہے۔
- شہری حقوق پر خدشات: ناقدین کا کہنا ہے کہ دوسرے ٹرمپ دور میں نگرانی میں اضافہ، اختلاف رائے کو دبانے اور داخلی بدامنی پر قابو پانے کے لیے صدارتی اختیارات کا زیادہ استعمال ہوسکتا ہے۔
- ماحولیاتی اور موسمیاتی پالیسیاں
- بین الاقوامی معاہدوں سے دستبرداری: ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں پیرس ماحولیاتی معاہدے سے امریکہ کو نکالا تھا۔ دوسرے دور میں، وہ ماحولیاتی تبدیلی کے اقدامات پر شکوک ظاہر کرتے ہوئے زیادہ توجہ توانائی کی خود کفالت پر دیں گے، خاص طور پر کوئلے، تیل اور گیس کے شعبے میں۔
- ماحولیاتی قوانین میں نرمی: ماحولیاتی تحفظات میں مزید کمی کی کوشش ہوگی تاکہ صنعتوں جیسے کان کنی اور تیل کی ڈرلنگ کو فروغ دیا جا سکے۔
- ممکنہ سیاسی بحران
- مواخذہ اور قانونی چیلنجز: ٹرمپ کی قانونی مشکلات اور جاری تحقیقات کو مدنظر رکھتے ہوئے، دوسرے دور میں سیاسی اور قانونی لڑائیوں کا سامنا ہو سکتا ہے، اور ان کے مخالفین کی طرف سے مزید مواخذہ کی کوششیں کی جا سکتی ہیں۔
- پولرائزیشن اور پارٹیزن شپ: امریکہ میں سیاسی ماحول پہلے ہی تقسیم کا شکار ہے، اور دوسرے ٹرمپ دور سے یہ تقسیم مزید بڑھ سکتی ہے، جس کے نتیجے میں ممکنہ احتجاج اور شہری بدامنی کا خدشہ ہے۔
نتیجہ: زیادہ مضبوط اور بے خوف ٹرمپ صدارت
اگر ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو ان کا دوسرا دور زیادہ جارحانہ، تبدیلی لانے والا، اور ممکنہ طور پر متنازع ہوگا۔ دوبارہ انتخاب کے دباؤ کے بغیر، ٹرمپ اپنی ترجیحات پر زیادہ زور دے سکتے ہیں، حکومتی اداروں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر سکتے ہیں، اور اپنی “امریکہ فرسٹ” پالیسیوں کو مزید شدت کے ساتھ نافذ کر سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، امریکہ کی جمہوری روایات، قانونی ڈھانچے اور بین الاقوامی تعلقات پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
—
—
—
—
—
—
—
—