شام میں حالیہ سیاسی تبدیلیوں نے خطے میں ایک نئی بحث کا آغاز کیا ہے، خاص طور پر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد۔ بشار الاسد کی حکومت کے دوران شام نے فلسطینی اور لبنانی مزاحمت کی حمایت کی، جس کے نتیجے میں یہ ملک ان مزاحمتی تنظیموں کا ایک اہم مرکز بن گیا۔ مزاحمت کی قیادت اور آپریشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول رومز شام میں قائم تھے، جہاں مزاحمتی تنظیموں کی قیادتیں اپنے بین الاقوامی ہمدردوں سے ملتی تھیں اور یہاں پر منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔
Table of Contents
مزاحمت کا پس منظر
شام نے ہمیشہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی حمایت کی ہے، اور اس کے ساتھ ہی فلسطینی اور لبنانی مزاحمت تنظیموں کو بھی پناہ فراہم کی ہے۔ بشار الاسد کی حکومت نے ان تنظیموں کو مالی اور عسکری مدد فراہم کی، جس سے یہ گروپ اپنی کارروائیاں جاری رکھ سکے۔ اس دوران، شام سے ہی ان مزاحمتی تنظیموں کو اسلحہ اور دیگر وسائل فراہم کیے جاتے تھے، جو غاصب صہیونی رجیم کے خلاف ان کی جنگ میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔
بشار الاسد کا دور
چودہ سال قبل جب شام پر یلغار ہوئی، تو بشار الاسد اور ان کی فوج نے بھرپور مزاحمت دکھائی۔ اس وقت ایران، روس اور مختلف مزاحمتی تنظیمیں بشار کا ساتھ دینے کے لیے میدان میں آئیں۔ ان ممالک نے نہ صرف عسکری مدد فراہم کی بلکہ سیاسی حمایت بھی جاری رکھی۔ بشار الاسد کو اس وقت کوئی نہیں ہلا سکا، اور انہوں نے اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔
حالیہ تبدیلیاں
تاہم، حالیہ دنوں میں جب دوبارہ یلغار ہوئی تو بشار الاسد اور ان کی فوج نے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک حیران کن موڑ تھا کیونکہ اس سے پہلے وہ ہمیشہ مزاحمت کرنے کے لیے تیار رہے تھے۔ بشار نے اپنے اتحادیوں سے مدد مانگنے کے بجائے خاموشی سے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اقدام نہ صرف عسکری طور پر ان کی شکست کا مظہر تھا بلکہ سیاسی طور پر بھی یہ ان کے اتحادیوں کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔
اسلامی تحریکوں کا عروج
بشار الاسد کے جانے کے بعد شام اب خود کو اسلامی تحریکوں کے حوالے کر چکا ہے، جنہوں نے حال ہی میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان اسلامی گروہوں کی فتح پر پاکستان سمیت کئی ممالک میں خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ گروہ اب اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والے عناصر کے طور پر ابھر رہے ہیں، جس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا یہ گروہ بشار الاسد کی طرح اسرائیل کے خلاف موثر کردار ادا کر سکیں گے یا نہیں۔
مستقبل کے امکانات
شام میں نئی حکومت کا قیام اور اس کا اسرائیل مخالف مزاحمت تحریکوں کی مدد کرنے والا کردار اہم ہوگا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا نئی شامی حکومت غاصب صہیونی رجیم کے خلاف لڑنے والی مزاحمت تحریکوں کو سپورٹ کرے گی یا نہیں۔ شام جس جغرافیائی حیثیت میں واقع ہے، وہ کسی قلعے سے کم نہیں ہے، اور اگر یہاں اسلامی تحریکیں مضبوط ہوں تو یہ اسرائیل کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہیں۔
نتیجہ
بشار الاسد کا جانا نہ صرف شام بلکہ پورے خطے کے لیے ایک نیا دور لے کر آیا ہے۔ عسکری طور پر یہ ان کی شکست ہے، لیکن سیاسی طور پر یہ ان کے اتحادیوں کے لیے ایک بڑا سیٹ بیک ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اسلامی تحریکیں جوش و خروش سے میدان میں آئیں اور غاصب صہیونی رجیم کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔
یہ تبدیلیاں نہ صرف شام بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو متاثر کر سکتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ آیا نئی شامی حکومت اپنے سابقہ اتحادیوں کی طرح مزاحمت کرنے والی تنظیموں کی حمایت کرتی ہے یا نہیں، کیونکہ اس وقت خطے میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے موثر حکمت عملی ضروری ہوگی۔