سانحہ آرمی پبلک سکول، پشاور، پاکستان کی تاریخ کا ایک انتہائی دلخراش اور سیاہ دن تھا، جب 16 دسمبر 2014 کو تحریک طالبان پاکستان کے مسلح افراد نے ایک منظم حملے کے ذریعے معصوم طلبہ اور اساتذہ کی جانیں لیں۔ یہ واقعہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اہمیت کو اجاگر کرنے والا ثابت ہوا۔
Table of Contents
واقعے کی تفصیلات
حملے کا منصوبہ
حملے کے لیے تحریک طالبان پاکستان نے ایک منظم منصوبہ بنایا۔ چھ دہشت گردوں نے فرنٹیئر کور کی وردی میں ملبوس ہو کر آرمی پبلک سکول کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے۔ انہوں نے اسکول کے عقبی دروازے سے داخل ہو کر آڈیٹوریم میں موجود طلبہ پر اندھا دھند فائرنگ شروع کی۔ اس وقت آڈیٹوریم میں آٹھویں، نویں اور دسویں جماعت کے طلبہ موجود تھے، جنہیں ابتدائی طبی امداد کی تربیت دی جا رہی تھی۔
حملے کا نتیجہ
اس حملے میں 147 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 132 بچے شامل تھے۔ یہ واقعہ پاکستان کی تاریخ کا مہلک ترین دہشت گردانہ حملہ تھا، جس نے نہ صرف متاثرین کے خاندانوں بلکہ پوری قوم کو گہرے صدمے میں مبتلا کر دیا۔ اس واقعے کے بعد پاکستانی فوج نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کو ہلاک کیا اور اسکول میں موجود 950 طلبہ اور اساتذہ کو محفوظ نکال لیا۔
واقعے کے بعد کے حالات
قومی ردعمل
سانحہ آرمی پبلک سکول نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نئی روح پھونکی۔ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان (NAP) تشکیل دیا، جس کا مقصد ملک بھر میں شدت پسندی کا قلع قمع کرنا تھا۔ اس پلان کے تحت مختلف آپریشنز کیے گئے جن میں شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں شامل تھیں۔
قانونی اور انتظامی اقدامات
حملے کے بعد کئی قانونی اور انتظامی اقدامات کیے گئے۔ ملٹری کورٹس قائم کی گئیں تاکہ دہشت گردوں کے خلاف تیز رفتار انصاف فراہم کیا جا سکے۔ اس سانحے میں ملوث دہشت گردوں میں سے کئی کو گرفتار کر کے سزائیں سنائی گئیں۔
عوامی یادگاریں
ہر سال 16 دسمبر کو سانحہ آرمی پبلک سکول کی برسی منائی جاتی ہے، جس میں شہید بچوں اور اساتذہ کی یاد میں مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ یہ تقریبات نہ صرف متاثرین کے اہل خانہ کے لیے بلکہ پوری قوم کے لیے ایک موقع ہوتی ہیں کہ وہ اپنے غم کا اظہار کریں اور عہد کریں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑتے رہیں گے۔
والدین کا مطالبہ
سانحے کے بعد متاثرین کے والدین نے اعلیٰ سول و عسکری قیادت کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔ والدین کا کہنا تھا کہ ان کے بچے ایک محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، لیکن حکومتی غفلت نے انہیں خطرے میں ڈال دیا۔
نتیجہ
سانحہ آرمی پبلک سکول نے پاکستانی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک قومی سانحہ تھا بلکہ اس نے ملک کی سیکیورٹی پالیسیوں اور عوامی ذہنیت پر بھی اثر ڈالا۔ آج بھی یہ واقعہ ہر پاکستانی کے دل میں تازہ ہے، اور یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کی حفاظت کرنا ہے اور دہشت گردی کے خلاف متحد ہو کر لڑنا ہے۔
یہ واقعہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ تعلیم اور امن کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے، تاکہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ مستقبل فراہم کر سکیں۔
سانحہ اے پی ایس پشاور
حملے کی منصوبہ بندی افغانستان کے صوبے کنڑ میں کی گئی تھی۔ حملہ آور تنظیم کا بیس کیمپ افغانستان تھا اور حملے کے ماسٹر مائنڈ خراسانی کو اس وقت کی افغان حکومت نے افغانستان میں چار گھر دے رکھے تھے۔ حملے کی قیادت نعمان شاہ ہلمند نامی افغانی کر رہا تھا۔ پاکستان میں حملہ آؤروں کے سہولت کار بھی افغانی تھے۔
اس حملے پر پوری دنیا نے دکھ کا اظہار کیا تھا۔ لیکن افغانیوں نے اس عظیم سانحے پر بھی “خوند ی شتہ” یعنی “مزہ آیا؟” کے سٹیٹس لگائے تھے۔
اگر یہ کہا جائے کہ اے پی ایس کا حملہ افغانیوں کا پاکستان کو لگایا گیا سب سے گہرا زخم ہے تو غلط نہ ہوگا۔
اس حملے میں مجموعی طور پر 149 لوگ شہید ہوئے جن 134 بچے تھے۔ جب کہ 121 زخمی ہوئے تھے۔ سکول میں موجود 950 بچوں اور استاتذہ کو پاک فوج نے ریسکیو کر لیا تھا۔
جون 2014ء میں دہشت گردوں نے کراچی انٹرنیشنل ائر پورٹ پر حملہ کر دیا۔ ٹی ٹی پی نے ذمہ داری قبول کی۔ جس کے جواب میں پاک فوج نے فاٹا میں آپریشن ضرب عضب کے نام سے دہشت گردوں کے خلاف سب سے بڑا آپریشن لانچ کیا۔
اس آپریشن کے لیے ملک بھر میں جگہ جگہ سیکیورٹی پر تعئنات فوجیوں کی تعداد کم کر دی گئی اور زیادہ تر فوج دہشتگردوں سے فیصلہ کن جنگ کرنے کے لیے وزیرستان بھیج دی گئی۔
1/5
اس جنگ میں دہشت گردوں سے تمام زیر قبضہ علاقے چھڑا لیے گئے۔ ان کے مراکز کا خاتمہ کر دیا گیا۔ بہت سے مارے گئے۔ کچھ پکڑے گئے اور باقیوں نے بھاگ افغانستان میں پناہ لے لی۔
اس کے جواب میں 16 دسمبر 2014ء کی صبح دس بجے کے وقت ٹی ٹی پی کے سات دہشت گردوں نے پشاور میں ورسک روڈ پر قائم اے پی ایس سکول پر حملہ کر دیا۔ یہ سکول پشاور کینٹ سے باہر ورسک روڈ پر واقع ہے۔
دہشت گرد آٹومیٹک گنوں، ہینڈ گرنیڈ اور مختلف طرح کے بموں سے لیس تھے۔ انہوں نے سکول میں گھستے ہی بے دریغ بچوں اور بڑوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔
پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز کو پہنچنے میں شائد پندرہ سے بیس منٹ لگے ہونگے۔ کمانڈوز نے سکول میں داخل ہوتے ہی دہشت گردوں پر حملہ کر کے ان کو انگیج کر لیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ مزید بچوں کے پیچھے نہ جاسکے۔
ابتدائی حملے میں ہی تین دہشت گرد ہلاک کر دئے گئے جن میں سے ایک کو سنائپر نے نشانہ بنایا تھا۔ اسی دوران پاک فوج بچوں اور استاتذہ کو مسلسل ریسکیو کرتی رہی
1/4
لڑائی کے دوران ہی پولیس اور پاک فوج کے جوانوں نے سکول کو حصار میں لے لیا تاکہ کوئی دہشت گرد بھاگ نہ سکے۔
باقی بچ جانے والے دہشت گرد مرکزی آڈیٹوریم کی طرف بھاگے جہاں کمروں میں بہت سے بچے ابھی موجود تھے۔
ایس ایس جی کمانڈوز برق رفتاری سے آڈیٹوریم پہنچے جہاں دہشت گردوں سے دوبدو مقابلہ ہوا۔ ان دہشت گردوں میں ایک خودکش حملہ آور بھی تھا۔ اس دوبدو لڑائی میں بچ جانے والے باقی تمام دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
مقابلے میں دو افسروں سمیت پاک فوج کے سات جوان زخمی ہوئے۔
آپریشن کے فوراً بعد ایک سرچ آپریشن کیا گیا تاکہ اگر کہیں دہشت گردوں نے کوئی بم وغیرہ نصب کیے ہیں تو ان کو ڈی فیوز کیا جاسکے۔
حملہ کرنے والوں کا منصوبہ تھا کہ نیچے سے اوپر تک اس انداز میں جائنگے کہ کوئی ایک بچہ یا بندہ زندہ نہ بچنے پائے۔ وہ اس میں تو ناکام رہے لیکن پھر بھی بہت بڑا نقصان پہنچا گئے۔ سکول میں اس وقت کل بچوں اور سٹاف سمیت 1099 لوگ تھے جن میں سے 950 کو بچا لیا گیا تھا۔
ٹی ٹی پی نے اعلان کیا کہ شہید ہونے والوں بچوں میں سے 50 کے قریب فوجیوں کے بچے ہیں۔ ان کے امیر فضل اللہ نے افغانستان سے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں اس حملہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس کو ضرب عضب کا بدلہ قرار دیا۔
1/3
حملے کے اگلے ہی دن اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی افغانستان کے ایک طوفانی دورے پر گئے جہاں انہوں نے اشرف غنی اور نیٹو کمانڈر سے ملاقات کی۔
مختلف مصدقہ رپورٹس کے مطابق اس ملاقات میں راحیل شریف نے اشرف غنی اور نیٹو کمانڈر کو دھمکی دی کہ مقررہ مدت کے اندر اندر حملے کے ذمہ داروں کے خلاف نتیجہ خیز کاروائی نہ ہوئی تو ہم ہر آپشن استعمال کرینگے اور اافغانستان کے اندر بھی کاروئیاں کرینگے۔
راحیل شریف کے الفاظ تھے ” “Wipe out Taliban or we will”
یہ دھمکی کسی حد تک کام کر گئی۔ گو کہ افغانستان نے کچھ تعاون کیا لیکن پاک فوج نے اس کے باؤجود افغانستان میں دہشت گردوں پر براہ راست حملے کیے جس پر اشرف غنی نے احتجاج بھی کیا۔ انہی حملوں میں اے پی ایس کا ماسٹر مائنڈ مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والا عمر خالد خراسانی شدید زخمی ہوا۔ جس کے بارے میں احسان اللہ احسان نے انکشاف کیا تھا کہ اس کو افغان اسٹیبلشمنٹ نے افغانی کاغذات پر علاج کے لیے انڈیا بھیج دیا تھا۔
پاکستان میں اس حملے کے تمام سہولت کاروں کو پکڑ کر پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ سوائے ایک کو جس کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے بچا لیا اور وہ آج تک زندہ ہے۔
اس حملے کے بعد دہشت گردوں کے لیے پاکستان میں رہی سہی ہمدردیاں بھی ختم ہوگئیں۔
افغانیوں کے خلاف بہت بڑا کریک ڈاؤن ہوا جس کی وجہ سے پشاور سے کم از کم تیس ہزار افغانی واپس افغانستان چلے گئے جو کچھ عرصے بعد رفتہ رفتہ پھر واپس آگئے۔
حملہ اس قدر ظالمانہ تھا کہ اس کے بعد خود ٹی ٹی پی میں بھی پھوٹ پڑ گئی۔
1/2
ٹی ٹی پی کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اس حملے پر مذمتی بیان جاری کیا جس پر خالد خراسانی نے اس کی سرزنش کی۔ جس کے بعد احسان اللہ احسان اور ٹی ٹی پی میں دوریاں پیدا ہوئیں۔ یہ دوریاں اتنی بڑھیں کہ احسان اللہ احسان نے معافی کی شرط پر پاک فوج کے سامنے سرنڈر کر لیا۔
القاعدہ جیسی تنظیم نے بھی اس حملے کی مزمت کی اور کہا کہ بچوں کو نشانہ بنانا غلط تھا۔
حملے کے بعد صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور پاک فوج کی جانب سے شہداء اور زخمیوں میں امدادی رقوم تقسیم کی گئیں۔اے پی ایس نے جہاں پوری قوم کو جوڑا وہاں کچھ عجیب اور افسوسناک واقعات بھی ہوئے۔ امدادی رقوم پر جھگڑے ہونے لگے۔ فلاں کو زیادہ اور فلاں کو کم ملا جیسی باتیں۔ چند کرداروں نے ریاست کو مزید رقوم کے لیے بلیک میل کرنا شروع کیا۔ چھوٹے چھوٹے گروپس بنا کر سیاست کی گئی۔ چند ایک کروڑوں روپے لے کر بھی مزید رقوم کا تقاضا کرنے لگے۔ جب مطالبہ پورا نہ ہوسکا تو اسی فوج کے خلاف زہر اگلا جانے لگا جو ان دہشت گردوں کے خلاف ہمارا اکلوتا سہارا ہے۔
اے پی ایس حملہ افغانستان کا پاکستان میں سکول بچوں پر پہلا حملہ نہیں تھا۔ شائد کچھ لوگوں کو یاد ہو 1994ء میں بھی کچھ افغان دہشت گردوں نے ایک سکول بس میں ساٹھ سے ستر بچوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ انہوں نے کئی لاکھ ڈالر رقم مانگی تھی بصورت دیگر بچوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔
اس وقت بھی ایس ایس جی کمانڈوز نے آپریشن کیا تھا اور کسی ایک بچے کو بھی گزند پہنچائے بغیر ان دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا تھا۔
اے پی ایس نے ہمیں دہشت گردوں کے خلاف کچھ عرصہ کے لیے متحد کر دیا تھا۔ لیکن ان کی پشت پناہی کرنے والی اصل طاقت افغانستان کے خلاف ہم لوگ آج بھی منتشر ہیں۔
#APS
#Peshawar