امریکا کے نائب قومی سلامتی مشیر جان فائنر نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان ایسے بیلسٹک میزائل تیار کر رہا ہے جو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ امریکا کے اہداف کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب امریکا نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے منسلک چار اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔
Table of Contents
پاکستان کے میزائل پروگرام کا پس منظر
پاکستان کا بیلسٹک میزائل پروگرام ایک طویل تاریخ رکھتا ہے اور یہ ملک کی دفاعی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہے۔ پاکستان نے مختلف قسم کے بیلسٹک اور کروز میزائل تیار کیے ہیں، جن میں شاہین اور غزنوی جیسے نامور میزائل شامل ہیں۔ یہ میزائل مختلف رینج کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی تیاری کا مقصد ملک کی دفاعی خود مختاری کو برقرار رکھنا ہے۔
جان فائنر کا بیان
جان فائنر نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ پاکستان کی میزائل ترقیات اس کے ارادوں پر سوالات اٹھاتی ہیں۔ انہوں نے کہا، “پاکستان نے جدید میزائیل ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے، جس کے تحت وہ دور تک مار کرنے والے میزائل سسٹم تیار کر سکتا ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو پاکستان یہ صلاحیت حاصل کر لے گا کہ وہ امریکا کے اندر تک اہداف کو نشانہ بنا سکے۔
امریکی پابندیاں
امریکا نے حال ہی میں نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس (NDC) اور تین دیگر پاکستانی اداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان اداروں پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو آگے بڑھانے میں مدد دی۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ یہ پابندیاں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذرائع کو روکنے کے لیے لگائی گئی ہیں۔
پابندیوں کی وجوہات
امریکا کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں کئی وجوہات کی بنا پر ہیں:
- میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی: پاکستان کی جانب سے جدید بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی۔
- اسٹریٹجک خطرات: پاکستان کی سرگرمیاں امریکا کے لیے ایک ابھرتا ہوا خطرہ بن رہی ہیں۔
- علاقائی عدم توازن: امریکا کا ماننا ہے کہ یہ اقدامات خطے میں فوجی عدم توازن کو بڑھا سکتے ہیں۔
پاکستان کا ردعمل
پاکستان نے امریکی پابندیوں کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹریٹجک صلاحیتوں کا مقصد جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو برقرار رکھنا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ “یہ پابندیاں سیاسی مقاصد کے تحت لگائی گئی ہیں اور ان کا مقصد فوجی عدم توازن کو بڑھانا ہے۔”
عالمی تناظر
پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر امریکی خدشات اس وقت بڑھ گئے جب افغانستان سے امریکی فوجی انخلا مکمل ہوا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا اب خطے میں بھارت کے ساتھ تعاون بڑھا رہا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
ماہرین کی آراء
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر عائد کردہ پابندیاں دراصل سیاسی نوعیت کی ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی نے کہا کہ “یہ پابندیاں اس بات کا اشارہ ہیں کہ امریکا پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ اپنے میزائل ترقیاتی پروگرام کو محدود کرے۔”
مستقبل کے امکانات
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کا ان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ وہ کسی بھی مغربی ٹیکنالوجی پر انحصار نہیں کرتے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگرچہ پابندیاں کچھ مشکلات پیدا کر سکتی ہیں، لیکن پاکستان ماضی میں بھی ایسے چیلنجز کا سامنا کر چکا ہے۔
نتیجہ
پاکستان کا بیلسٹک میزائل پروگرام اور اس پر عائد کردہ امریکی پابندیاں بین الاقوامی تعلقات میں ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکی ہیں۔ جان فائنر کا بیان اور امریکا کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ خطے میں طاقت کا توازن کس طرح تبدیل ہو رہا ہے۔
پاکستان کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے، جبکہ امریکا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مستقبل میں مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں، خاص طور پر جب نئی امریکی حکومت اقتدار سنبھالے گی۔
یہ صورتحال نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی سطح پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے، جس سے امن و امان اور سلامتی کے مسائل پیدا ہونے کا خدشہ موجود ہے۔