16 جنوری 2025 کو خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر کرم کے علاقے بگن میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں سامانِ رسد لے جانے والے قافلے پر مسلح افراد نے فائرنگ کی۔ اس حملے کے نتیجے میں دو سیکیورٹی اہلکار شہید اور دو زخمی ہو گئے ہی5]۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب قافلہ پاراچنار کی طرف جا رہا تھا، جس میں 35 گاڑیوں کا ایک بڑا قافلہ شامل تھا]۔
امن معاہدے کی خلاف ورزی
یہ واقعہ اس علاقے میں پچھلے دو ہفتوں میں ہونے والی امن معاہدے کی خلاف ورزیوں کا تسلسل ہے۔ یکم جنوری 2025 کو ہونے والے امن معاہدے کے تحت، مقامی امن کمیٹیوں نے علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کی گارنٹی دی تھی، مگر اس کے باوجود 4 جنوری کو اسی علاقے میں ڈی سی کُرم پر بھی فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔
ریاستی کارروائی کا سوال
سوال یہ ہے کہ کیا ریاست ان شر پسند عناصر کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کرے گی جو امن معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہے؟ امن معاہدے کے مطابق، معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے فریقین پر بھاری جرمانے عائد کیے جانے اور ان کے خلاف کارروائی کی تجاویز دی گئی تھیں۔ اگر مقامی امن کمیٹیاں اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کرتیں تو ریاست کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ علاقے کے لوگوں کو دی جانے والی مالی امداد روک دے اور مزید کارروائیاں کرے]۔
عوامی مشکلات
امن دشمن عناصر کی ان حرکات کی وجہ سے پاڑا چنار کی اہم شاہراہ کئی ہفتوں سے بند ہے، جس سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ریاست سے اپیل کی گئی ہے کہ فوری اور مؤثر کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ عوام کی زندگی کو سہل بنایا جا سکے۔
یہ تمام واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ علاقے میں امن قائم رکھنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے، اور ریاست کو چاہیے کہ وہ ان شر پسند عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کرے تاکہ ایسے واقعات کا سدِ باب کیا جا سکے۔
امن کمیٹیوں کے وعدوں کا پاس نہ رکھنا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کی کئی وجوہات ہیں:
1. مقامی شر پسند عناصر کی موجودگی
مقامی شر پسند عناصر کی سرگرمیاں امن معاہدے کی خلاف ورزیوں کا بنیادی سبب ہیں۔ یہ عناصر اپنے مفادات کے حصول کے لیے امن کمیٹیوں کی کوششوں کو ناکام بناتے ہیں، جس سے علاقے میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔
2. عدم اعتماد اور خوف
علاقے کے لوگوں میں عدم اعتماد اور خوف کی فضا بھی امن کمیٹیوں کے وعدوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ لوگ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر وہ امن کمیٹیوں کے ساتھ تعاون کریں گے تو ان پر حملے ہو سکتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
3. معاشی مسائل
بہت سے لوگ معاشی مشکلات کا شکار ہیں، جو انہیں شر پسند عناصر کے ساتھ مل کر کام کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ جب لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتیں تو وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں شامل ہونے لگتے ہیں، جس سے امن معاہدے کی پاسداری متاثر ہوتی ہے۔
4. حکومتی عدم توجہ
حکومت کی جانب سے علاقے میں ترقیاتی منصوبوں اور سیکیورٹی کی عدم موجودگی بھی ایک اہم وجہ ہے۔ اگر حکومت مقامی لوگوں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو لوگ امن کمیٹیوں کے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے۔
5. تعلیمی و ثقافتی عوامل
تعلیم کی کمی اور ثقافتی مسائل بھی اس صورتحال میں کردار ادا کرتے ہیں۔ جب لوگ بنیادی تعلیم سے محروم ہوتے ہیں تو انہیں صحیح راستہ اختیار کرنے میں دشواری ہوتی ہے، جس سے شر پسند عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
یہ تمام وجوہات مل کر امن کمیٹیوں کے وعدوں کی پاسداری میں رکاوٹ بنتی ہیں، اور اگر ان مسائل کا حل نہ نکالا گیا تو علاقے میں امن قائم کرنا مشکل ہوگا۔
امن کمیٹیوں کے وعدوں کا پاس نہ رکھنا عوام کی اعتماد پر منفی اثر ڈال رہا ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں:
1. وعدہ خلافی کا احساس
جب امن کمیٹیاں اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کرتیں تو عوام میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ان کے تحفظ اور امن کے لیے کی جانے والی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔ اس سے عوام کا ان کمیٹیوں پر اعتماد متزلزل ہوتا ہے، کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی حفاظت کے لیے جو عہد کیے گئے تھے، وہ محض زبانی جمع خرچ ہیی۔
2. عدم تحفظ کا احساس
علاقے میں بڑھتی ہوئی تشدد اور عدم استحکام کی وجہ سے عوام میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ جب امن کمیٹیاں شر پسند عناصر کو روکنے میں ناکام رہتی ہیں، تو عوام کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی زندگی اور مال کا کوئی تحفظ نہیں ہے۔ یہ عدم تحفظ عوام کو مزید مایوس کرتا ہے اور ان کے اعتماد کو کمزور کرتا ہے]۔
3. مقامی حکومت پر عدم اعتماد
امن کمیٹیوں کی ناکامی سے مقامی حکومت اور انتظامیہ پر بھی عوام کا اعتماد متاثر ہوتا ہے۔ اگر لوگ دیکھیں کہ حکومت یا انتظامیہ امن قائم کرنے میں ناکام ہیں، تو وہ ان پر بھی بھروسہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں، جس سے مجموعی طور پر حکومتی نظام کی ساکھ متاثر ہوتی ہے]۔
4. معاشرتی تناؤ
جب امن کمیٹیاں اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کرتیں تو اس سے معاشرتی تناؤ بڑھتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر شک کرنے لگتے ہیں اور یہ صورتحال معاشرتی ہم آہنگی کو متاثر کرتی ہے۔ اس تناؤ کی وجہ سے علاقے میں مزید مسائل جنم لیتے ہیں، جیسے کہ جھگڑے اور تنازعات، جو کہ عوام کے اعتماد کو مزید کمزور کرتے ہیی]۔
5. تبدیلی کی امید کا ختم ہونا
عوام میں تبدیلی کی امید کا ختم ہونا بھی ایک اہم پہلو ہے۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ امن کمیٹیاں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام ہیں تو ان کی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں، جس سے وہ کسی بھی مثبت تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہ صورتحال ایک منفی چکر پیدا کرتی ہے جہاں لوگ خود کو بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں۔
یہ تمام عوامل مل کر عوام کے اعتماد کو متاثر کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں علاقے میں امن و امان کی صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔
لوئر کرم میں امن معاہدے کی خلاف ورزیوں کے خلاف ریاست کی ممکنہ کارروائیاں مندرجہ ذیل ہیں:
1. سخت قانونی کارروائی
ریاست امن معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کر سکتی ہے۔ اس میں شامل ہو سکتا ہے:
- گرفتاری: خلاف ورزی کرنے والوں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے گا، خاص طور پر اگر وہ مسلح حملوں میں ملوث ہوں].
- جرمانے: معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے فریقین پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں گے.
2. اسلحہ جمع کرنے کی مہم
معاہدے کے تحت، ریاست اسلحہ جمع کرنے کی مہم شروع کر سکتی ہے۔ تمام بھاری اسلحہ ایک مہینے کے اندر ضلعی پولیس کے پاس جمع کروانے کی ہدایت دی گئی ہے].
3. امن کمیٹیوں کا کردار
امن کمیٹیاں بھی حکومت کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہوں گی۔ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو یہ کمیٹیاں فوراً متحرک ہوں گی اور شرپسند عناصر کے خلاف کارروائی کریں گی].
4. مقامی مشران کی شمولیت
ریاست مقامی مشران کو بھی شامل کر سکتی ہے تاکہ وہ شرپسندوں کی گرفتاری میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ اس طرح، مقامی سطح پر تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے].
5. سوشل میڈیا پر نگرانی
سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقاریر اور مواد کے خلاف کارروائی بھی ممکن ہے۔ ایسے افراد کے خلاف مقدمات درج کیے جا سکتے ہیں جو امن معاہدے کی روح کو نقصان پہنچاتے ہیں1].
6. بنیادی ڈھانچے کی بحالی
ریاست متاثرہ علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لیے بھی اقدامات کر سکتی ہے، تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو اور وہ امن معاہدے کی پاسداری کریں.
7. پناہ گزینوں کی آبادکاری
بے دخل خاندانوں کو ان کے علاقوں میں آباد کرنے کے اقدامات بھی کیے جا سکتے ہیں، تاکہ علاقے میں امن اور استحکام کو فروغ دیا جا سکے].
یہ تمام اقدامات ریاست کو اس بات کو یقینی بنانے میں مدد دیں گے کہ امن معاہدے کی پاسداری ہو اور علاقے میں امن و امان قائم رہے۔