
صوبہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ سے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی سمگلنگ نہ رک سکی، سمگلروں کو کھلی چھوٹ، ایکسا اور پولیس اہلکاروں کے وارے نیارے، پیدا گیر نامی اہلکار کھرب پتی بن گیا!
اسلام آباد (بیورو رپورٹ): کیا آپ یہ سوچتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے حکومت پاکستان اور عوام کی بھلائی کے لیے ایمانداری سے ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ بالکل غلط سوچ رہے ہیں۔ پاکستان میں جب کوئی نوکری کرتا ہے تو وہ دن رات اس فکر میں مبتلا رہتا ہے کہ کسی طرح کروڑ پتی بن جائے۔ اسی طرح پاکستان میں ہر ناجائز کام کی باری رقم وصول کی جاتی ہے۔
صوبہ بلوچستان آج کل سمگلنگ میں نمبر ون بن چکا ہے۔ خیبر پختون خواہ کے علاقوں ڈی آئی خان، ٹانک اور دیگر علاقوں سے خشک میوہ جات، منشیات اور گاڑیوں کی سمگلنگ عام ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ اہم اداروں کے بعض اہلکاروں کو ڈی آئی خان سے مبینہ الزامات کی آڑ میں گرفتار بھی کیا گیا ہے اور ان کے خلاف اعلیٰ سطح پر تحقیقات بھی جاری ہے۔
اسلام آباد کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے باآسانی راولپنڈی اور اسلام آباد تک نان کسٹم پیڈ گاڑیاں بڑی آسانی کے ساتھ براستہ موٹروے صوابی، چارسدہ، مردان، اور سوات موٹروے سے مالاکنڈ ڈویژن پہنچ جاتی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تمام چیک پوسٹوں پر موجود اہلکار یا تو شراب پی کر سو رہے ہوتے ہیں، یا پھر منتھلیاں لے کر مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
سوات موٹروے مردان ایکسائز اہلکاروں کی کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ وہاں ایسے اہلکار تعینات ہیں جن کو من پسند جگہوں پر پوسٹنگ دی جاتی ہے۔ عرصہ دراز سے ایکسائز کا ایک اہلکار، جو ‘پیدا گیر’ کے نام سے مشہور ہے، سب ڈیلنگ اسی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ سمگلنگ کی ڈیل ہو یا نان کسٹم پیڈ ایشیا، افغانستان کے بڑے بڑے سمگلر ایکسائز اہلکار پیدا گیر کے سچے مرید بن چکے ہیں۔ ہر مہینے دم ڈالنے کے لیے اپنے ‘پیر’ کے پاس مرید حاضر ہوتے ہیں۔
یہی روٹ ہے جہاں پولیس کی بھی کئی ناکے بندیاں ہوتی ہیں، مگر وہ بھی انہی کی طرح کردار ادا کرتے ہیں۔ پولیس والوں کا کہنا ہے کہ یہ کسٹم اور ایکسائز والوں کا کام ہے، ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ حالانکہ یہ سب جانتے ہیں کہ پولیس کے کئی افسران کے پاس نان کسٹم پیڈ گاڑیاں موجود ہیں، اور کئی گاڑیاں تو ہڑپ بھی کی جا چکی ہیں۔
ویڈیو میں دیکھیے گاڑیوں کی منڈیاں لگی ہوئی ہیں، اور وہاں موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ یہ گاڑیاں یہاں کیسے آتی ہیں۔ لگتا تو یہی ہے کہ یہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ہیلی کاپٹر کی طرح اُڑ کر مالاکنڈ ڈویژن پہنچتی ہیں۔ یہ انتہائی پریشان کن امر ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نان کسٹم گاڑیوں میں بڑی مقدار میں منشیات بھی سپلائی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان تمام غیر قانونی کاروبار کی اجازت کس نے دی؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ ادارے کے اہلکار کھربوں میں کھیل رہے ہیں اور ان کی کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں۔