
کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نہ صرف صورتحال سے آگاہ ہے بلکہ اس کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات بھی کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ نے واضح الفاظ میں کہا کہ حکومت کسی بھی دہشت گرد کو بلوچستان کی ایک انچ زمین پر بھی تین گھنٹے سے زیادہ قبضہ نہیں کرنے دے گی، اور چیلنج کیا کہ دہشت گرد دن کی روشنی میں آکر ایسا کر کے دکھائیں۔
وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے ان خیالات کا اظہار اتوار کے روز کوئٹہ میں پی ڈی ایم اے کے دفتر میں رمضان المبارک میں اڑھائی لاکھ خاندانوں کو راشن کی فراہمی کے منصوبے کے افتتاح کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منگل کو ایپکس کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے جس میں صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا اور مستقبل کے لائحہ عمل کا تعین کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نااہل ڈپٹی کمشنرز کو فوری طور پر تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ انتظامی امور کو بہتر بنایا جا سکے۔
انہوں نے اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے بلوچستان کی سیکورٹی صورتحال سے متعلق بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ حقائق سے لاعلم ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت تسلیم کرتی ہے کہ سیکورٹی صورتحال تشویشناک ہے، لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے کہ حکومت اس سے غافل ہے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن اور عمر ایوب سے مطالبہ کیا کہ وہ بے بنیاد الزامات لگانے کے بجائے ٹھوس حقائق پر بات کریں۔ انہوں نے عمر ایوب کو چیلنج کیا کہ وہ محمود خان اچکزئی سے پوچھے بغیر بلوچستان کے آٹھ اضلاع اور کسی ایک گلی کا نام بتا دیں۔
وزیراعلیٰ نے مسنگ پرسنز کے مسئلے کو پیچیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے بھی سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے۔ انہوں نے اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا کہ بعض عناصر لاپتہ افراد کے مسئلے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے سول سوسائٹی اور تمام متعلقہ طبقات سے تعاون کی خواہاں ہے۔
وزیراعلیٰ نے قومی شاہراہوں کی بندش کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے، لیکن اس کی آڑ میں سڑکیں بند کرنا اور عوام کو تکلیف دینا درست نہیں ہے۔ انہوں نے احتجاج کرنے والوں سے اپیل کی کہ وہ قومی شاہراہوں کے بجائے حکومت کی جانب سے متعین کردہ مقامات پر احتجاج کریں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ حکومت اپنی رٹ قائم کرنا اور قومی شاہراہوں کو بحال کرانا جانتی ہے اور اس سلسلے میں طاقت کا استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔
وزیراعلیٰ نے دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ انہوں نے سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ عمران خان کی حکومت نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کر کے دوبارہ منظم ہونے کا موقع فراہم کیا۔ انہوں نے افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد دہشت گردوں کے جدید اسلحہ حاصل کرنے کا بھی ذکر کیا۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ حکومت ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار ہے اور اسمارٹ حکمت عملی کے ذریعے صورتحال پر قابو پالے گی۔
وزیراعلیٰ نے نوابزادہ خالد مگسی کے بیان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے حالات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے وفاقی حکومت سے لیویز اور پولیس فورس کی استعداد بڑھانے کے لیے بجٹ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے بی ایریا کو اے ایریا میں تبدیل کرنے کے منصوبے کا بھی ذکر کیا جس سے امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئے گی۔
وزیراعلیٰ نے شاہ زین مری کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر وہ بلوچستان میں ہیں اور سندھ حکومت ان کی گرفتاری میں مدد مانگے گی تو بلوچستان حکومت تعاون کرے گی۔
وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی کے ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بلوچستان امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہے اور اس سلسلے میں تمام ضروری اقدامات اٹھا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال کے عندیے اور نااہل افسران کی تبدیلی کے فیصلے سے یہ پیغام ملتا ہے کہ وہ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ رمضان المبارک میں راشن کی فراہمی کا منصوبہ بھی حکومت کی جانب سے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اٹھایا گیا ایک مثبت قدم ہے۔