
پشاور: اکوڑہ خٹک میں ہونے والے افسوسناک خودکش دھماکے میں شہید ہونے والے دارالعلوم حقانیہ کے نائب مہتمم، مولانا حامد الحق حقانی، درحقیقت مولانا سمیع الحق شہید کے سب سے بڑے فرزند تھے۔ ان کی شہادت سے علمی، دینی اور سیاسی حلقوں میں ایک گہرا صدمہ اور رنج و غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔
مولانا حامد الحق حقانی کی زندگی کا سفر 26 مئی 1968ء کو اکوڑہ خٹک کے مردم خیز خطے میں شروع ہوا۔ یہ وہ خطہ ہے جس نے علم و عرفان کے کئی روشن ستارے پیدا کیے ہیں۔ انہوں نے اپنی ابتدائی اور اعلیٰ دینی تعلیم نامور دینی درسگاہ، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے ہی حاصل کی۔ یہ ادارہ ان کے دادا، مولانا عبدالحق حقانی رحمۃ اللہ علیہ نے قائم کیا تھا، جس نے علم کی روشنی کو دور دور تک پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مولانا حامد الحق حقانی نے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی سیاست کے میدان میں بھی اپنی شناخت بنائی۔ وہ 2002ء سے 2007ء تک متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس دوران انہوں نے نوشہرہ کے حلقے کی عوام کی بھرپور نمائندگی کی اور ان کے مسائل کو ایوان میں اٹھایا۔ بطور رکن اسمبلی، انہوں نے عوامی خدمت اور فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
مولانا سمیع الحق شہید کی 2018ء میں شہادت کے بعد، مولانا حامد الحق حقانی پر دوہری ذمہ داری آن پڑی۔ انہیں جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ کی حیثیت سے جماعت کی قیادت سنبھالنی پڑی، اور ساتھ ہی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے نائب مہتمم کے طور پر تعلیمی اور انتظامی امور کی نگرانی بھی ان کے کندھوں پر آگئی۔ ان کے چچا، مولانا انوار الحق، دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم کے طور پر ادارے کی رہنمائی کر رہے ہیں۔
مولانا حامد الحق حقانی کا تعلق ایک گہرے علمی اور سیاسی گھرانے سے تھا۔ ان کے دادا، مولانا عبدالحق حقانی رحمۃ اللہ علیہ، نہ صرف دارالعلوم حقانیہ کے بانی تھے بلکہ قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے اور عملی سیاست میں ہمیشہ سرگرم رہے۔ ان کے والد، مولانا سمیع الحق شہید، ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن رہے اور انہیں مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ دینی جماعتوں کے تاریخی اتحاد، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے قیام میں بھی ان کا کلیدی کردار تھا۔ اس سے قبل، 2001ء میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، تو مولانا سمیع الحق نے دفاع افغانستان کونسل کی بنیاد رکھی، جس نے بعد ازاں ایم ایم اے کی شکل اختیار کی اور دینی جماعتوں کے ایک مضبوط انتخابی اتحاد کے طور پر سامنے آئی۔
مولانا حامد الحق حقانی کی علمی وراثت صرف ان کے ددھیال تک محدود نہیں تھی۔ ان کا ننھیال بھی علم و فضل کا گہوارہ تھا۔ جامعہ اشرفیہ پشاور کے بانی، مولانا اشرف علی قریشی رحمۃ اللہ علیہ، ان کے سسر تھے۔ یہ دونوں خاندان برصغیر پاک و ہند میں دینی علوم کی اشاعت اور ترویج میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔
مولانا حامد الحق حقانی کی زندگی علم، سیاست اور خدمت دین کا ایک حسین امتزاج تھی۔ ان کی شہادت ایک عظیم نقصان ہے، جس کی تلافی ممکن نہیں۔ تاہم، ان کی زندگی اور جدوجہد ہمیشہ ان لوگوں کے لیے مشعل راہ رہے گی جو علم، دین اور عوام کی خدمت کو اپنا نصب العین بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔