
تین ممالک کے درمیان موجودہ فوجی مشقیں ایک ایسے نازک وقت میں ہو رہی ہیں جب اسرائیل اور امریکہ نے حالیہ مہینوں میں بارہا ایران کو دھمکی دی ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
یہ فوجی مشقیں خاص طور پر اہم ہیں کیونکہ یہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں ہو رہی ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ دونوں ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں اور انہوں نے بارہا کہا ہے کہ اگر سفارت کاری ناکام ہو جاتی ہے تو وہ اسے روکنے کے لیے فوجی کارروائی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، لیکن بین الاقوامی برادری کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
فوجی مشقوں کا اصل مقصد کسی حد تک غیر واضح ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان کا مقصد ایران کو ایک واضح پیغام بھیجنا ہے۔ یہ مشقیں ایران کو یہ ظاہر کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ ایران کے جوہری پروگرام سے نمٹنے کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو فوجی طاقت استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ان مشقوں کا مقصد اسرائیل اور امریکہ کے درمیان فوجی تعاون کو بہتر بنانا ہو۔ دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے ہی قریبی فوجی تعلقات ہیں، لیکن یہ مشقیں ان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ ان فوجی مشقوں کا خطے پر کیا اثر پڑے گا۔ یہ ممکن ہے کہ وہ کشیدگی کو مزید بڑھا دیں اور غلط فہمی یا غلط حساب کتاب کا خطرہ بڑھا دیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ایران کو یہ باور کرانے میں مدد کریں کہ اسے اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں، یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ یہ صورتحال انتہائی سیال ہے اور کچھ بھی تیزی سے بدل سکتا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں کیا ہوتا ہے۔