
سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں اپنی خارجہ پالیسی میں ایک نمایاں تبدیلی کی ہے۔ جہاں ماضی میں سعودی عرب علاقائی سطح پر اپنی قوت اور اثر و رسوخ کو براہِ راست استعمال کرنے میں زیادہ جارحانہ رہا ہے، وہیں اب بین الاقوامی سطح پر تنازعات کے حل کے لیے ایک ثالث اور مفاہمت کار کے طور پر اپنا کردار بڑھا رہا ہے۔ اس تبدیلی کی وجوہات پیچیدہ اور کثیر الجہتی ہیں، جن میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں اور خود سعودی عرب کے اندرونی عوامل بھی شامل ہیں۔
جارحانہ حکمت عملی کی خصوصیات (ماضی میں):
ماضی میں سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں کچھ جارحانہ عناصر نمایاں تھے، جن میں:
- یمن جنگ میں براہِ راست مداخلت: 2015 میں حوثی باغیوں کے خلاف یمن میں فوجی مداخلت سعودی عرب کی جارحیت کی ایک نمایاں مثال ہے۔ اس مداخلت کا مقصد یمن میں قانونی حکومت کو بحال کرنا تھا، لیکن یہ جنگ طویل اور مہنگی ثابت ہوئی اور بین الاقوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بھی بنی۔
- ایران کے خلاف سخت موقف: سعودی عرب ہمیشہ سے ایران کو اپنا علاقائی حریف سمجھتا رہا ہے۔ ماضی میں سعودی عرب نے ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے سخت پالیسیاں اپنائیں، جن میں شام اور یمن جیسے ممالک میں پراکسی جنگیں بھی شامل ہیں۔
- قطر کے ساتھ سفارتی بحران (2017-2021): سعودی عرب نے 2017 میں قطر پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے اس کا بائیکاٹ کیا اور سفارتی تعلقات منقطع کر لیے۔ یہ اقدام بھی سعودی عرب کی جانب سے اپنی علاقائی طاقت کے جارحانہ استعمال کی مثال تھی۔
جارحانہ حکمت عملی ترک کرنے اور ثالث کا کردار اپنانے کی وجوہات:
سعودی عرب کی جانب سے جارحانہ حکمت عملی ترک کر کے ‘بین الاقوامی ثالث’ کا کردار اپنانے کی کئی اہم وجوہات ہیں:
- جارحانہ حکمت عملی کی محدود کامیابی: یمن جنگ اور قطر کے ساتھ بحران جیسے واقعات نے ظاہر کیا کہ جارحانہ پالیسی ہمیشہ مطلوبہ نتائج نہیں دیتی اور بعض اوقات یہ الٹا اثر بھی کر سکتی ہے۔ یمن جنگ ایک دلدل بن گئی اور قطر بحران سے سعودی عرب کو کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوا۔
- معاشی ترجیحات اور ویژن 2030: سعودی عرب اس وقت ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن 2030 کے تحت اپنی معیشت کو متنوع بنانے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ جارحانہ خارجہ پالیسی اور علاقائی تنازعات معاشی ترقی کے لیے سازگار ماحول فراہم نہیں کرتے۔ امن اور استحکام غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے اور سیاحت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہیں۔
- بین الاقوامی سطح پر ساکھ کو بہتر بنانا: جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے سعودی عرب کی بین الاقوامی سطح پر ساکھ متاثر ہوئی تھی۔ خاص طور پر یمن جنگ اور انسانی حقوق کے حوالے سے خدشات نے سعودی عرب کے امیج کو نقصان پہنچایا۔ ثالث کا کردار اپنا کر سعودی عرب اپنی ساکھ کو بہتر بنانا چاہتا ہے اور خود کو ایک ذمہ دار اور امن پسند ملک کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔
- علاقائی اور بین الاقوامی دباؤ: یمن جنگ کے خاتمے اور علاقائی تنازعات کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر دباؤ بڑھ رہا تھا۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک بھی سعودی عرب پر زور دے رہے تھے کہ وہ اپنی جارحانہ پالیسیوں کو ترک کر کے سفارتی حل کی طرف توجہ دے۔
- داخلی سیاسی تبدیلیاں: ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اقتدار میں آنے کے بعد سعودی عرب کی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں تبدیلیاں آئی ہیں۔ نئی قیادت علاقائی تنازعات کے پرامن حل اور بین الاقوامی تعاون کو اہمیت دے رہی ہے۔
سعودی عرب بطور ثالث:
سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں کئی اہم بین الاقوامی اور علاقائی تنازعات میں ثالثی کا کردار ادا کیا ہے، جن میں:
- ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی (2023): چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی ایک اہم سفارتی کامیابی ہے۔ اس معاہدے سے دونوں علاقائی حریفوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔
- سوڈان بحران میں ثالثی کی کوششیں (2023-جاری): سوڈان میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سعودی عرب اور امریکہ نے مشترکہ طور پر جنگ بندی کرانے اور مذاکرات شروع کرانے کی کوششیں کیں۔ اگرچہ یہ کوششیں ابھی تک مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوئیں، لیکن یہ سعودی عرب کے ثالثی کے کردار کی ایک اور مثال ہیں۔
- یوکرین جنگ میں امن فارمولا پر بات چیت کی میزبانی (2023): سعودی عرب نے یوکرین بحران کے حل کے لیے مختلف ممالک کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کی میزبانی کی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب عالمی امن کے مسائل میں بھی فعال کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔
بطور ثالث سعودی عرب اور قطر میں فرق:
اگرچہ سعودی عرب اور قطر دونوں ہی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ثالثی کے کردار ادا کر رہے ہیں، لیکن ان کے طریقوں اور نوعیت میں کچھ اہم فرق موجود ہیں:
پہلو | سعودی عرب | قطر |
ثالثی کی نوعیت | نسبتاً نیا کردار، حالیہ برسوں میں زیادہ فعال | ایک طویل عرصے سے ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے، ثالثی میں زیادہ تجربہ کار |
طریقہ کار | حکومت کی سطح پر، رسمی اور ریاستی ثالثی پر زیادہ توجہ | زیادہ لچکدار، غیر ریاستی عناصر اور گروہوں کے ساتھ بھی مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے تیار، غیر رسمی ثالثی پر بھی توجہ |
وسائل اور طاقت | سعودی عرب معاشی اور سیاسی طاقت کا استعمال کرتا ہے، سفارتی اور مالی وسائل کو بروئے کار لاتا ہے | قطر اپنی سفارتی مہارت، وسیع نیٹ ورک اور میڈیا کے اثر و رسوخ کو استعمال کرتا ہے، تعلقات بنانے اور اعتماد پیدا کرنے پر زیادہ توجہ دیتا ہے |
محرکات | اپنی بین الاقوامی ساکھ کو بہتر بنانا، علاقائی استحکام کو فروغ دینا (خاص طور پر تیل کی قیمتوں کے لیے)، ویژن 2030 کے اہداف کے حصول میں مدد کرنا | علاقائی اثر و رسوخ بڑھانا، بین الاقوامی سطح پر اپنا امیج بہتر بنانا، خود کو ایک اہم اور ذمہ دار ملک کے طور پر پیش کرنا، چھوٹے ممالک کے لیے جگہ بنانا |
تعلقات | روایتی طور پر مغربی ممالک اور عرب ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات، ایران کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوشش | تمام فریقوں کے ساتھ غیر جانبدارانہ تعلقات بنانے کی کوشش، بشمول غیر ریاستی عناصر اور مخالف گروہ، متنوع بین الاقوامی تعلقات کا نیٹ ورک |
مثال | ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی، سوڈان بحران میں ثالثی | طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی میزبانی، مختلف علاقائی اور بین الاقوامی تنازعات میں ثالثی |
خلاصہ:
سعودی عرب کا جارحانہ حکمت عملی سے ‘بین الاقوامی ثالث’ کے کردار کی طرف سفر ایک اہم تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بدلتے ہوئے حالات اور سعودی عرب کی اپنی داخلی ترجیحات کی عکاسی کرتی ہے۔ اگرچہ سعودی عرب ثالثی کے میدان میں قطر کے مقابلے میں نسبتاً نیا ہے، لیکن اس کی معاشی اور سیاسی طاقت، سفارتی وسائل اور نئی قیادت کے وژن کے باعث یہ مستقبل میں ایک اہم ثالث کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے ثالثی کے انداز مختلف ہیں، لیکن دونوں کا مقصد علاقائی اور بین الاقوامی امن اور استحکام کو فروغ دینا ہے۔
اگر آپ اس موضوع پر مزید کوئی سوال یا وضاحت چاہتے ہیں تو براہ کرم پوچھیں۔