
اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سخت شرائط کو پورا کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے یکم جولائی 2025 سے ڈیجیٹل پروڈکشن ٹریکنگ سسٹم کے نفاذ کو تیز کرنے کا اہم فیصلہ کیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد ٹیکس ریونیو میں اضافہ کرنا اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حکام نے بتایا ہے کہ اگر انفورسمنٹ اقدامات نہ کیے جاتے تو حکومت کو 700 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے پڑتے، جو کہ عوام پر مزید بوجھ ڈالتا۔ اس فیصلے کے تحت سگریٹ، سیمنٹ، پولٹری، مشروبات، کھاد اور ٹیکسٹائل کے شعبوں کی نگرانی میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر، ٹوبیکو سیکٹر کی پیداوار اور فروخت کو ڈیجیٹل ٹریکنگ سسٹم کے ذریعے مانیٹر کیا جائے گا تاکہ ٹیکس چوری کو روکا جا سکے۔
ایف بی آر حکام نے مزید بتایا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں قائم سگریٹ کے کارخانوں کی پیداوار پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔ انہوں نے چینی کے شعبے کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ پیداوار کی نگرانی بہتر بنانے سے ٹیکس ریونیو میں 39 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے، کیونکہ اس سے قبل چینی کے شعبے میں پیداوار کی “انڈر رپورٹنگ” ہو رہی تھی۔ اس کامیابی کو دیگر شعبوں میں بھی دہرانے کا عزم کیا گیا ہے۔
حکام نے مزید انکشاف کیا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کی بھی کیمروں کے ذریعے نگرانی کی جائے گی تاکہ اس شعبے سے بھی ٹیکس وصولی کو بہتر بنایا جا سکے۔ حکومت کا ہدف ہے کہ سیلز ٹیکس ریونیو کو جی ڈی پی کے 5 فیصد کے مساوی تک لے جایا جائے۔
ایف بی آر حکام کے مطابق، آئی ایم ایف کے ساتھ انفورسمنٹ اقدامات بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ نئے مالی سال کے لیے 14 ہزار 131 ارب روپے کے ٹیکس ہدف میں 389 ارب روپے کے انفورسمنٹ اقدامات شامل ہیں، جبکہ 312 ارب روپے کے اضافی ٹیکس اقدامات بھی اس ہدف کا حصہ ہیں۔ یہ تمام اقدامات ملکی معیشت کو مستحکم کرنے اور آئی ایم ایف کے پروگرام کو کامیابی سے مکمل کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔