
فوری خبر: ایران کی طرف سے اسرائیل پر ایک بار پھر شدید میزائل حملہ، دفاعی نظام کی ناکامی کے بعد بڑے پیمانے پر تباہی کے خدشات
تاریخ: 13 جون 2025
تعارف:
خطے میں جاری کشیدگی میں ایک تشویشناک اضافہ ہوا ہے، جب ابھی کچھ دیر قبل ایران نے اسرائیل پر ایک بار پھر میزائل حملہ کیا ہے۔ یہ حملہ پہلے کے حملوں سے زیادہ شدید نوعیت کا تھا، جس میں بھاری تعداد میں میزائل داغے گئے اور اطلاعات کے مطابق کئی اہم اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں کے بعد اسرائیل میں بڑے پیمانے پر تباہی اور جانی نقصان کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، جس نے عالمی سطح پر تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔
حملے کی تفصیلات:
اس تازہ ترین حملے میں ایران نے اسرائیل کی طرف تقریباً 30 میزائل داغے۔ یہ میزائل فضا کو چیرتے ہوئے اپنے اہداف کی طرف بڑھے اور ابتدائی اطلاعات کے مطابق، ان میں سے 10 میزائلوں نے براہِ راست اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ یہ تعداد پچھلے حملوں کے مقابلے میں کامیاب ہدف کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ہدف بنائے گئے مقامات میں کئی حساس اور اسٹریٹجک تنصیبات شامل ہیں، جن کے بارے میں ابھی تک مکمل تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، متعدد عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور انفراسٹرکچر بھی متاثر ہوا ہے۔
جانی نقصان اور ریسکیو آپریشن:
اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق، ان حملوں کے نتیجے میں ابتدائی طور پر 40 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ زخمیوں کو فوری طور پر طبی امداد کے لیے ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ ریسکیو آپریشن بڑے پیمانے پر جاری ہے، اور ایمرجنسی سروسز نے متاثرہ علاقوں میں اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملبے تلے دبے افراد اور شدید زخمیوں کی وجہ سے زخمیوں کی تعداد آئندہ چند گھنٹوں میں تین سے چار گنا بڑھ سکتی ہے۔ یہ صورتحال اسرائیل کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے، جہاں طبی نظام پر شدید دباؤ بڑھ گیا ہے۔
ایران کی طرف سے یہ تیسرا حملہ:
آج کا یہ میزائل حملہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں، بلکہ یہ تیسری بار ہے جب ایران نے حالیہ عرصے میں اسرائیل کو براہ راست نشانہ بنایا ہے۔ یہ حملے خطے میں بڑھتی ہوئی عسکری کشیدگی اور دونوں ممالک کے درمیان براہ راست تصادم کے خدشات کو مزید تقویت دیتے ہیں:
- پہلی بار: سب سے پہلے ایران نے اسرائیل پر ایک ڈرون حملہ کیا تھا، جس کا مقصد ممکنہ طور پر اسرائیلی دفاعی صلاحیتوں کا جائزہ لینا یا ایک علامتی ردعمل دینا تھا۔
- دوسری بار: اس کے بعد ایران نے تین میزائل داغے تھے، جو پہلے کے حملے سے زیادہ شدید تھے، لیکن ان کے نقصانات کے بارے میں زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔
- تیسری بار: اور اب تیسری بار، ایران نے اپنی حملے کی شدت میں نمایاں اضافہ کرتے ہوئے تقریباً 30 راکٹ فائر کیے ہیں، جن کا مقصد واضح طور پر زیادہ تباہی پھیلانا اور اسرائیلی دفاعی نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کرنا تھا۔
آئرن ڈوم کی ناکامی اور اس کے مضمرات:
اس حملے کی سب سے اہم اور تشویشناک بات یہ ہے کہ اسرائیل کے معروف دفاعی نظام “آئرن ڈوم” (Iron Dome) کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ مجموعی طور پر آج ایران کے 50 فیصد میزائلوں نے براہ راست ہدف کو نشانہ بنایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئرن ڈوم ان میں سے نصف راکٹوں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔
مختلف ذرائع سے حاصل شدہ تصاویر اور اعداد و شمار کے مطابق، آئرن ڈوم کی کامیابی کی شرح بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں پہلے یہ نظام 90 فیصد راکٹوں کو روکنے میں کامیاب ہوتا تھا، اب یہ شرح مسلسل گھٹ رہی ہے، جو اسرائیل کے دفاعی نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ یہ صورتحال اسرائیل کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ پیدا کرتی ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایران اپنے حملوں میں زیادہ درستگی اور تعداد کے ساتھ کامیاب ہو رہا ہے، جس سے آئرن ڈوم کا دفاع کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
علاقائی اور عالمی ردعمل:
اس تازہ ترین حملے کے بعد خطے میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہو گئی ہے۔ عالمی طاقتیں اور علاقائی ممالک فوری طور پر صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ممکنہ جوابی کارروائیوں کے خدشات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ حملہ مشرق وسطیٰ میں ایک نئے اور بڑے تنازعے کی چنگاری بن سکتا ہے، جس کے اثرات عالمی امن و امان پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔
ایران کی طرف سے یہ حملے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کی حالیہ جارحانہ کارروائیوں کا بھرپور جواب دینے پر مصر ہے، اور وہ اپنے دفاعی اور میزائل صلاحیتوں کو مزید مضبوط بنا رہا ہے۔ دوسری طرف، اسرائیل کا دفاعی نظام، جو ماضی میں ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا، اب ایک نئے امتحان سے گزر رہا ہے، اور اس کی کمزور ہوتی ہوئی کارکردگی اسرائیل کے لیے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ایک بڑا چیلنج ہے۔
نتیجہ:
ایران کا اسرائیل پر تازہ ترین میزائل حملہ خطے کی بدلتی ہوئی عسکری dynamics اور دونوں فریقوں کے بڑھتے ہوئے اعتماد کا مظہر ہے۔ آئرن ڈوم کی کمزور ہوتی ہوئی کارکردگی اور ایرانی میزائلوں کی بڑھتی ہوئی درستگی نے اسرائیل کے لیے نئی دفاعی حکمت عملیوں کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ یہ حملہ نہ صرف جانی و مالی نقصانات کا باعث بنا ہے بلکہ اس نے مستقبل میں مزید شدید تصادم کے دروازے بھی کھول دیے ہیں۔ عالمی برادری کو اس صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس خطے کو ایک بڑے پیمانے پر جنگ کی تباہ کاریوں سے بچایا جا سکے۔ آئندہ چند گھنٹے اور دن اس تنازعے کا رخ متعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔