
تو بطور ایک پی ایچ ڈی فزکس اور سائنس کا طلب علم، مجھے لگا کہ یہ بات سادہ اور عام فہم انداز میں سب کو سمجھانی چاہیے۔
دیکھیں… نیوکلیئر پروگرام کوئی چھوٹا موٹا پروجیکٹ نہیں ہوتا،
یہ کوئی لیب کا کمرہ نہیں،
اور نہ ہی کوئی بریف کیس ہے کہ خطرہ محسوس ہو تو اٹھا کر کہیں اور رکھ دیا جائے۔
یہ ایک پورا سسٹم ہوتا ہے۔
ہزاروں سینٹری فیوجز، میلوں لمبی پائپنگ، حساس درجہ حرارت اور دباؤ پر چلنے والے کنٹرول سسٹم،
خاص قسم کی بجلی کی فراہمی،
اور ایک ایسا ماحول جو عام فیکٹری میں نہیں بنایا جا سکتا۔
امریکہ نے جن جگہوں پر حملہ کیا، جیسے نطنز اور فردو،
وہ عام عمارتیں نہیں تھیں، بلکہ ایسی تنصیبات تھیں جہاں ایران یورینیم کو طاقتور بناتا ہے۔
یہ مراکز زمین کے اندر، پہاڑوں کے نیچے، سخت چٹانوں میں چھپائے گئے تھے
تاکہ کسی حملے کی صورت میں بھی آسانی سے تباہ نہ ہو سکیں۔
لوگ کہتے ہیں، “امریکہ نے بنکر بسٹر بم پھینکے ہیں، جو زمین کے اندر 50-60 میٹر تک جا کے دھماکہ کر سکتے ہیں!”
ہاں، ایسی ٹیکنالوجی ہے،
لیکن ایک یا دو بم پوری تنصیب کو تباہ نہیں کر سکتے خاص طور پر جب وہ جگہ پہلے سے حفاظتی لحاظ سے مضبوط بنائی گئی ہو۔
سیٹلائٹ کی تصویریں اور عالمی رپورٹس بھی یہی بتا رہی ہیں کہ صرف اوپر کی عمارتیں متاثر ہوئیں،
اصل مشینری، جو زمین کے اندر ہے، وہ ابھی بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔
اور رہی بات ریڈیایشن یعنی طابکاری کی؟
تو بھائی، جب وہاں کوئی ایکٹیو جوہری ری ایکٹر ہی نہیں تھا،
نہ کوئی فیول راڈز، نہ کوئی زنجیری تعامل
تو تابکاری (ریڈیایشن) کہاں سے پھیلتی؟
تو کیا ایران کا نیوکلیئر پروگرام ختم ہو گیا؟
نہیں۔
نہ ختم ہوا ہے، نہ اتنی آسانی سے ختم ہو گا۔
ایران کے پاس ابھی بھی:
یورینیم ہے،
سینٹری فیوجز ہیں،
سائنس دان موجود ہیں،
سسٹم کا ڈیزائن ہے،
اور سب سے بڑھ کر
عزم اور وقت ہے۔
اور یہ پانچ چیزیں کافی ہوتی ہیں کسی بھی نیوکلیئر پروگرام کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے۔
اگر ایران کے کسی ایٹمی پلانٹ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے، تو اس کے اثرات صرف ایران تک محدود نہیں رہیں گے۔ دھماکے کی شدت، ہوا کی سمت اور موسم کے لحاظ سے تابکاری کے اثرات عراق، افغانستان، پاکستان، خلیجی ممالک (سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، یو اے ای)، ترکی اور وسطی ایشیائی ممالک (جیسے ترکمانستان، ازبکستان) تک پہنچ سکتے ہیں۔ فضا میں موجود تابکار ذرات ہزاروں کلومیٹر دور تک بھی جا سکتے ہیں، اور اگر تابکاری پانی میں شامل ہو جائے تو سمندر کے راستے اس کا دائرہ اور بھی وسیع ہو سکتا ہے۔
چرنوبل اور فوکوشیما جیسے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایٹمی تباہی صرف ایک قوم یا ایک سرحد تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔
اس لیے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ “سب کچھ ختم ہو گیا”
تو ان سے بس اتنا کہنا ہے:
یہ فلم نہیں، یہ نیو کلئیر فزکس ہے۔
زیادہ سے زیادہ شئیر کریں تاکہ عام عوام کو بھی سادہ الفاظ میں یہ بات سمجھ آ جائے۔
تحریر
ڈاکٹر ملک کاشف مسعودv