
راولپنڈی (اڈیالہ جیل): پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے اڈیالہ جیل سے اپنے ایک حالیہ بیان میں صوبہ خیبر پختونخوا کے بجٹ کی منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان کی مشاورت کے بغیر خیبر پختونخوا کا بجٹ منظور نہیں ہونا چاہیے تھا اور وہ سپریم کورٹ کی اجازت سے بجٹ میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں کروائیں گے، جسے انہوں نے اپنا “حتمی فیصلہ” قرار دیا ہے۔ عمران خان کا یہ بیان ان کی بہنوں سے ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے، اور اس نے ملکی سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
تفصیلات ملاقات اور علیمہ خان کا مؤقف:
اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد ان کی بہن علیمہ خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر عظمیٰ خان اور نورین نیازی کو بانی سے ملاقات کی اجازت ملی، تاہم انہیں خود اندر جانے نہیں دیا گیا۔ علیمہ خان نے میڈیا کو عمران خان کے پیغامات پہنچاتے ہوئے کہا کہ بانی نے اس مشکل وقت میں سوشل میڈیا کو عوام کی آواز قرار دیا، جو حکومت کے اقدامات پر عوامی ردعمل کو نمایاں کر رہا ہے۔
بجٹ کے معاملے پر بات کرتے ہوئے علیمہ خان نے بتایا کہ عمران خان نے کہا کہ بیرسٹر سیف ان کے پاس بھیجے گئے تھے جنہوں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ بجٹ اتنی جلدی اور مجبوری میں کیوں پیش کیا گیا۔ اس پر عمران خان نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “علی امین گنڈا پور کو میرے پاس بہت پہلے آجانا چاہیے تھا۔” یہ بیان صوبائی حکومت کے بجٹ پیش کرنے کے طریقہ کار اور اس میں بانی چیئرمین کو نظر انداز کرنے پر ان کی شدید ناراضگی کی عکاسی کرتا ہے۔ عمران خان، جو پی ٹی آئی کے سربراہ ہیں، صوبائی حکومت کے اہم ترین فیصلے میں اپنی مشاورت کو لازمی سمجھتے ہیں، خاص طور پر جب ان کی پارٹی صوبے میں حکمران ہو۔
بجٹ میں تبدیلیوں کا مطالبہ اور سپریم کورٹ سے رجوع:
علیمہ خان کے مطابق، عمران خان نے خیبر پختونخوا کے بجٹ کے حوالے سے اپنے مطالبات کو مزید واضح کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ایک پانچ رکنی ٹیم ان کے پاس مشاورت کے لیے آئے۔ عمران خان نے سوال اٹھایا کہ اگر بجٹ پیش کر دیا گیا ہے، تو “سپریم کورٹ جائیں اور بتائیں کہ آئی ایم ایف کیسے قبول کرے گا پارٹی ہیڈ کی مشاورت کے بغیر یہ بجٹ منظور نہیں ہونا چاہیے تھا۔” یہ بیان پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ جاری مذاکرات کے تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ عمران خان کا مؤقف ہے کہ پارٹی سربراہ کی مشاورت کے بغیر منظور شدہ بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں مسائل پیدا کر سکتا ہے، کیونکہ مالیاتی اداروں کو یہ یقین دہانی چاہیے ہوتی ہے کہ بجٹ مستحکم اور حکمران جماعت کے رہنماؤں کی مکمل حمایت یافتہ ہے۔
عمران خان نے زور دیا کہ اب سپریم کورٹ جائیں اور اجازت لیں، اور وہی مشاورتی ٹیم دوبارہ ان کے پاس آئے، تاکہ وہ جائزہ لے سکیں کہ بجٹ میں کیا تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ “یہ میرا حتمی فیصلہ ہے” اور یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اس بجٹ کو قبول کر لیں جو بہت جلدی، صرف تین گھنٹے میں پاس کر دیا گیا۔ یہ الفاظ بجٹ کی تیزی سے منظوری پر ان کے گہرے تحفظات کو ظاہر کرتے ہیں، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید اس میں مناسب غور و خوض نہیں کیا گیا۔ ان کا سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا ارادہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اس معاملے کو قانونی اور آئینی سطح پر اٹھانے کے لیے سنجیدہ ہیں، اور اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے بجٹ میں اپنی منشا کے مطابق تبدیلیاں کروانا چاہتے ہیں۔
سرپلس بجٹ پر عدم اطمینان:
علیمہ خان نے یہ بھی بتایا کہ عمران خان سرپلس بجٹ پر بالکل خوش نہیں تھے۔ ان کے بقول، عمران خان نے کہا کہ “آپ نے سرپلس کیوں دکھایا؟ یہ وفاقی حکومت کو بینیفٹ کرتا ہے۔” یہ نکتہ عمران خان کی وفاق کے ساتھ صوبوں کے مالیاتی تعلقات اور بجٹ سازی کے عمل پر ان کی گہری بصیرت کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ صوبے کا سرپلس بجٹ وفاقی حکومت کو فائدہ پہنچاتا ہے کیونکہ یہ انہیں آئی ایم ایف یا دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے سامنے مالیاتی استحکام کا مظاہرہ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان صوبے کے مالیاتی وسائل کو زیادہ سے زیادہ صوبے کے اندر ہی ترقیاتی منصوبوں اور عوامی فلاح و بہ بہود پر خرچ کرنا چاہتے ہیں، تاکہ وفاق کو اس کا زیادہ فائدہ نہ ہو۔
علیمہ خان نے مزید کہا کہ اب بانی چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ سے اجازت لے کر بجٹ میں تبدیلیاں لائی جائیں، اور وہ جو تبدیلیاں کہیں گے وہ کرنا ہوں گی، کیونکہ “یہ ان کا حتمی فیصلہ ہے۔” یہ موقف اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ عمران خان جیل میں ہونے کے باوجود اپنی پارٹی کے فیصلوں اور صوبائی حکومت کی پالیسیوں پر مکمل کنٹرول رکھنا چاہتے ہیں۔
عوامی ردعمل اور جیل انتظامیہ پر تبصرے:
علیم ہ خان نے اپنی گفتگو میں عمران خان کے عوامی ردعمل اور جیل انتظامیہ کے رویے سے متعلق عمومی تبصرے بھی شامل کیے۔ علیمہ خان کے مطابق، بانی کا کہنا تھا کہ جب عوام اپنا ردعمل دیتی ہے تو “آپ کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ خلاف ہے بلکہ آپ کو ان کی آواز سننا چاہیے۔” یہ بیان ملک میں سیاسی اختلاف رائے اور حکومتی پالیسیوں پر عوامی احتجاج کے حق کو تسلیم کرنے پر زور دیتا ہے۔ عمران خان کا یہ مؤقف جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ ہے جہاں عوامی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔
جیل میں ملاقاتوں کے حوالے سے علیمہ خان نے انتظامیہ پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ “یہاں پر کرنل صاحب فیصلہ کرتے ہیں کہ کون جیل کے اندر ملاقات کے لیے جائے گا، تیمور جھگڑا، سلمان اکرم اور علی امین کو اجازت نہیں ملتی لیکن بیرسٹر سیف کو ملاقات کی اجازت ملتی ہے۔” انہوں نے طنزیہ انداز میں مزید کہا کہ “کرنل صاحب جو فیصلہ کرتے ہیں ان کو بیرسٹر سیف ہی پسند ہیں۔” یہ تبصرہ جیل حکام کی جانب سے ملاقاتوں پر مبینہ پابندیوں اور بعض افراد کو ترجیح دینے پر سوال اٹھاتا ہے، جو عمران خان کی پارٹی کے اندرونی حلقوں میں پائے جانے والے تحفظات کو ظاہر کرتا ہے۔
بین الاقوامی امور پر خیالات:
علیم ہ خان نے عمران خان کے بین الاقوامی امور پر بھی کچھ خیالات کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق، بانی کا کہنا تھا کہ “ٹرمپ اور ایران اکٹھے مل کر سیز فائر کرکے فیصلے کرلیں گے، ہمیں اپنے ملک کی فکر کرنی چاہیے، ایران بڑی مضبوط قوم ہے ان سے سیکھنا چاہیے۔” یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان کا یہ تبصرہ عالمی سیاست پر ان کی گہری نظر اور ایران کی خودمختاری و مضبوطی کو سراہنے کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ “ہمیں اپنے ملک کی فکر کرنی چاہیے” اور “ہمیں ملک میں قانون کی حکمرانی، اپنے حق کے لیے کھڑا ہونا چاہیے” اس بات پر زور دیتا ہے کہ پاکستان کو اندرونی طور پر مضبوط ہونے اور اپنے اصولوں پر کھڑا رہنے کی ضرورت ہے، بجائے اس کے کہ وہ بیرونی طاقتوں پر انحصار کرے۔ یہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے احترام کے لیے ان کی دیرینہ جدوجہد سے بھی جڑا ہوا ہے۔
بجٹ کے سیاسی و آئینی مضمرات:
عمران خان کا یہ مؤقف کہ صوبائی بجٹ پارٹی سربراہ کی مشاورت کے بغیر منظور نہیں ہونا چاہیے تھا، کئی آئینی اور سیاسی مضمرات رکھتا ہے۔ اصولی طور پر، صوبائی بجٹ صوبائی اسمبلی کی ذمہ داری ہوتا ہے، اور اسمبلی اسے منظور کرنے کی مجاز ہے۔ تاہم، سیاسی جماعتوں کے اندر، خاص طور پر پارلیمانی نظام میں، پارٹی سربراہ کی قیادت اور پالیسی سازی میں رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ عمران خان کے کیس میں، چونکہ وہ پارٹی کے بانی اور سربراہ ہیں، ان کی یہ توقع بجا ہو سکتی ہے کہ صوبائی حکومت، جو ان کی پارٹی سے تعلق رکھتی ہے، اہم مالیاتی فیصلوں میں ان کی رہنمائی حاصل کرے۔ ان کا سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اس معاملے کو ایک قانونی اور آئینی چیلنج کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جہاں بجٹ کی منظوری کے عمل میں مبینہ طور پر آئینی یا قانونی سقم ہو سکتا ہے، یا ان کے بقول، سیاسی مشاورت کا فقدان۔
آئی ایم ایف اور بجٹ کا تعلق:
آئی ایم ایف کے حوالے سے عمران خان کا نکتہ بھی اہم ہے۔ پاکستان کی معیشت اس وقت آئی ایم ایف کے پروگرام پر شدید انحصار کر رہی ہے، اور آئی ایم ایف مالیاتی نظم و ضبط اور بجٹ کی شفافیت پر زور دیتا ہے۔ اگر آئی ایم ایف یہ محسوس کرتا ہے کہ کسی صوبے کا بجٹ سیاسی قیادت کی مکمل حمایت سے منظور نہیں ہوا یا اس میں ایسے عناصر شامل ہیں جو مالیاتی استحکام کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، تو یہ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات کو متاثر کر سکتا ہے۔ عمران خان کا یہ کہنا کہ سرپلس بجٹ وفاق کو فائدہ پہنچاتا ہے، صوبوں کے مالیاتی خودمختاری اور قومی مالیاتی تقسیم کے معاملات پر بھی بحث کو جنم دیتا ہے۔ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ صوبوں کو اپنی مالیاتی پوزیشن کو مضبوط رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے ترقیاتی منصوبوں کو وفاق پر انحصار کیے بغیر چلا سکیں۔
جیل سے سیاست اور مستقبل کا منظرنامہ:
اڈیالہ جیل سے عمران خان کے بیانات ان کی مسلسل سیاسی سرگرمیوں اور اپنی پارٹی پر مضبوط گرفت کا مظہر ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ قید کے باوجود، وہ پاکستان کی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں، خاص طور پر اپنی پارٹی کے لیے پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں۔ ان کے بیانات ان کے حامیوں کو متحرک رکھتے ہیں اور سیاسی بیانیے کو متاثر کرتے رہتے ہیں۔
مستقبل میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر کیا موقف اختیار کرتی ہے، اور کیا عمران خان کی مشاورت سے بجٹ میں کوئی حقیقی تبدیلیاں لائی جاتی ہیں۔ یہ صورتحال پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ایک منفرد مثال قائم کرے گی جہاں ایک قید میں موجود سابق وزیر اعظم اور پارٹی سربراہ صوبائی بجٹ میں تبدیلیوں کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ واقعہ پاکستان میں سیاسی قوتوں کے توازن، عدلیہ کے کردار، اور معاشی پالیسیوں کے مستقبل پر بھی گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
نتیجہ:
عمران خان کا خیبر پختونخوا کے بجٹ پر حالیہ بیان محض ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ گہرے آئینی، مالیاتی، اور سیاسی مضمرات رکھتا ہے۔ ان کا یہ مطالبہ کہ بجٹ ان کی مشاورت کے بغیر منظور نہیں ہونا چاہیے تھا، اور سپریم کورٹ کے ذریعے اس میں تبدیلیوں کا ارادہ، ان کی اپنی پارٹی پر مضبوط گرفت اور حکومتی پالیسیوں میں اپنی رائے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ سرپلس بجٹ پر ان کا عدم اطمینان اور آئی ایم ایف کے حوالے سے ان کا نکتہ بھی قومی مالیاتی پالیسی پر ایک اہم بحث کو جنم دیتا ہے۔ یہ تمام پیشرفتیں آنے والے دنوں میں پاکستان کی سیاسی اور عدالتی صورتحال میں مزید تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں، اور عالمی سیاست پر ان کے تبصرے بھی ان کی فکری گہرائی اور بصیرت کی عکاسی کرتے ہیں۔