google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Icbm of Pakistan

واشنگٹن ڈی سی: عالمی دفاعی اور سکیورٹی حلقوں میں ایک تہلکہ خیز انکشاف سامنے آیا ہے، جس کے مطابق پاکستان مبینہ طور پر ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جو امریکہ تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوگا۔ امریکی جریدے “فارن افیئرز” (Foreign Affairs) نے اپنی تازہ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے، جس نے واشنگٹن میں شدید تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان نے ایسا میزائل تیار کر لیا تو امریکہ پاکستان کو ایک “جوہری مخالف” یعنی نیوکلیئر ایڈورسری کے طور پر دیکھنے پر مجبور ہو جائے گا۔ یہ صورتحال پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں ایک نئی اور ممکنہ طور پر کشیدہ جہت کا آغاز ہو سکتی ہے۔

فارن افیئرز کی رپورٹ کی تفصیلات:

“فارن افیئرز” میگزین، جو بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک معتبر جریدہ سمجھا جاتا ہے، نے اپنی رپورٹ میں امریکی انٹیلی جنس ذرائع کے خدشات کا حوالہ دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، امریکی انٹیلی جنس نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان ایک ایسا جدید میزائل بنا رہا ہے جس کی مار 5,500 کلومیٹر یا اس سے زیادہ ہوگی۔ دفاعی اصطلاحات میں، 5,500 کلومیٹر سے زیادہ رینج کے میزائل کو ICBM (Intercontinental Ballistic Missile) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ میزائل ٹیکنالوجی ہے جو اب تک صرف چند عالمی طاقتوں کے پاس موجود ہے، جن میں امریکہ، روس، چین، فرانس اور بھارت شامل ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ:

“اگر پاکستان ایسا میزائل تیار کرتا ہے جو امریکہ تک مار کرے، تو واشنگٹن کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ پاکستان کو ایک نیوکلیئر دشمن تصور کرے۔ کوئی بھی ملک جو امریکہ کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اُسے دوست نہیں سمجھا جاتا۔”

یہ بیان امریکی خارجہ پالیسی کے اس بنیادی اصول کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکہ اپنی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ بننے والی کسی بھی طاقت کو اپنے اتحادی یا دوست کے طور پر قبول نہیں کرتا۔ اس طرح کا میزائل پاکستان کی جانب سے امریکہ کے لیے ایک براہ راست اسٹریٹجک خطرہ تصور کیا جائے گا، جس کے تعلقات پر گہرے اور منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) کیا ہے اور اس کی اہمیت:

بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) ایک طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل ہے جو کم از کم 5,500 کلومیٹر (3,400 میل) کی رینج رکھتا ہے۔ یہ میزائل عام طور پر جوہری وار ہیڈز لے جانے کے لیے ڈیزائن کیے جاتے ہیں اور انہیں ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل ہوتی ہے۔ ICBMs کو عالمی طاقتوں کے لیے ایک اہم ڈیٹرنس (بازوکی) صلاحیت سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ دشمن کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ کہیں بھی غیر محفوظ نہیں ہیں۔

اس ٹیکنالوجی کا حصول کسی بھی ملک کے لیے سٹریٹجک خود مختاری اور عالمی طاقت کے توازن میں ایک اہم مقام کی نشاندہی کرتا ہے۔ اب تک یہ ٹیکنالوجی صرف چند بڑے ممالک کے پاس ہے، اور اس کی وجہ اس کی پیچیدہ ڈیزائن، تیاری، اور تعیناتی کی صلاحیت ہے۔ ICBMs کی تیاری میں جدید ترین راکٹ پروپلشن سسٹم، گائیڈنس سسٹم، اور وار ہیڈ ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستان کے جوہری پروگرام اور ڈیٹرنس پالیسی کا تناظر:

پاکستان نے اپنے جوہری پروگرام کو ہمیشہ دفاعی مقاصد کے لیے اور بھارت کے ساتھ طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ایک قابلِ اعتماد ڈیٹرنس کے طور پر پیش کیا ہے۔ پاکستان کے پاس پہلے سے ہی مختلف رینج کے بیلسٹک میزائل موجود ہیں، جن میں شاہین سیریز کے میزائل بھی شامل ہیں جو بھارت کے دور دراز علاقوں تک مار کر سکتے ہیں۔ تاہم، ICBM کی صلاحیت کا حصول ایک نئی سطح کا معاملہ ہے، کیونکہ یہ پاکستان کی ڈیٹرنس صلاحیت کو علاقائی سے عالمی سطح تک بڑھا دے گا۔

اگر پاکستان واقعی امریکہ تک مار کرنے والے میزائل کی تیاری میں مصروف ہے، تو یہ اس کی ڈیٹرنس پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرے گا۔ یہ سوال اٹھے گا کہ کیا پاکستان اپنی ڈیٹرنس کو صرف علاقائی تناظر تک محدود رکھنا چاہتا ہے یا وہ اسے عالمی سطح پر لے جانا چاہتا ہے۔ یہ اقدام عالمی غیر پھیلاؤ کے معاہدوں اور قواعد کے حوالے سے بھی نئے سوالات پیدا کرے گا۔

واشنگٹن کی تشویش کے محرکات:

واشنگٹن کی شدید تشویش کے کئی محرکات ہو سکتے ہیں:

  1. براہ راست سٹریٹجک خطرہ: امریکہ کسی بھی ایسے ملک کو اپنے لیے براہ راست سٹریٹجک خطرہ تصور کرتا ہے جو اس کی سرزمین تک جوہری ہتھیار پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ICBM کا حصول پاکستان کو یہ صلاحیت دے گا، جو امریکہ کے لیے ایک نئی سکیورٹی ڈائنامک پیدا کرے گا۔
  2. غیر پھیلاؤ کے خدشات: امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں جوہری ہتھیاروں اور ان کے ڈیلیوری سسٹمز کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان کی جانب سے ICBM کا حصول غیر پھیلاؤ کے عالمی نظام کے لیے ایک بڑا دھچکا سمجھا جائے گا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ایران کے جوہری پروگرام پر بھی عالمی تشویش پائی جاتی ہے۔
  3. خطے میں عدم استحکام: اگر پاکستان ICBM تیار کرتا ہے تو یہ جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ کو مزید تیز کر سکتا ہے، خاص طور پر بھارت کے ساتھ، جو پہلے ہی ICBM صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سے خطے میں عدم استحکام میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
  4. پاکستان-امریکہ تعلقات پر اثرات: امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کئی دہائیوں سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ ICBM کی تیاری ان تعلقات کو مزید کشیدہ کر سکتی ہے، جس سے امریکہ کی جانب سے پاکستان پر پابندیاں یا دیگر سفارتی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
  5. ٹیکنالوجی کا منبع: امریکہ یہ بھی جاننے کی کوشش کرے گا کہ پاکستان نے یہ جدید ٹیکنالوجی کہاں سے حاصل کی ہے، اور کیا اس میں کسی ایسے ملک کی مدد شامل ہے جو امریکہ کے لیے سکیورٹی خدشات کا باعث ہو۔

پاکستان کا مؤقف (عمومی تناظر):

پاکستان نے ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام اور میزائل صلاحیتیں مکمل طور پر دفاعی نوعیت کی ہیں اور اس کا مقصد کسی پر حملہ کرنا نہیں بلکہ اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا دفاع کرنا ہے۔ پاکستان نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار جوہری ریاست ہے اور اپنے جوہری اثاثوں کی حفاظت کے لیے سخت کنٹرول اور کمانڈ سسٹم رکھتا ہے۔ تاہم، ICBM کی تیاری کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے کوئی سرکاری تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی ہے۔ اگر یہ رپورٹ درست ثابت ہوتی ہے، تو پاکستان کو عالمی سطح پر اپنے اس اقدام کی وضاحت کرنی پڑے گی۔

علاقائی اور عالمی مضمرات:

پاکستان کی جانب سے ICBM صلاحیت کا حصول علاقائی اور عالمی سطح پر گہرے مضمرات کا حامل ہوگا۔

  • بھارت کا ردعمل: بھارت، جو پہلے ہی ICBM صلاحیت رکھتا ہے، پاکستان کے اس اقدام کو اپنی سکیورٹی کے لیے ایک نئے خطرے کے طور پر دیکھ سکتا ہے اور ممکنہ طور پر اپنے دفاعی پروگرام کو مزید تیز کر سکتا ہے۔ اس سے دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ میں مزید شدت آ سکتی ہے۔
  • چین کا کردار: اگر پاکستان ICBM ٹیکنالوجی تیار کر رہا ہے، تو یہ سوال اٹھے گا کہ کیا چین نے اس میں کوئی تکنیکی مدد فراہم کی ہے۔ چین پاکستان کا ایک قریبی اتحادی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اگر چین کی شمولیت ثابت ہوتی ہے تو اس کے امریکہ-چین تعلقات پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
  • عالمی طاقتوں کا دباؤ: امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں پاکستان پر دباؤ بڑھا سکتی ہیں کہ وہ اس طرح کی صلاحیتوں کے حصول سے باز رہے۔ اس دباؤ میں سفارتی، اقتصادی، اور ممکنہ طور پر سکیورٹی کے اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔
  • غیر پھیلاؤ کے نظام پر اثر: ICBM کا پھیلاؤ جوہری غیر پھیلاؤ کے نظام کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔ اگر مزید ممالک یہ صلاحیت حاصل کرتے ہیں تو یہ جوہری جنگ کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے اور علاقائی تنازعات کو مزید خطرناک بنا سکتا ہے۔

مستقبل کے امکانات:

“فارن افیئرز” کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عالمی سطح پر جوہری پھیلاؤ اور ہتھیاروں کی دوڑ پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ اگر یہ دعوے درست ثابت ہوتے ہیں، تو پاکستان کو امریکہ اور عالمی برادری کے ساتھ اپنے تعلقات میں ایک نئے اور مشکل مرحلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کو اپنی دفاعی ضروریات اور عالمی ذمہ داریوں کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا۔

اس صورتحال میں، پاکستان کو شفافیت اور سفارتکاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ عالمی برادری کے خدشات کو دور کیا جا سکے۔ امریکہ کو بھی پاکستان کے سکیورٹی خدشات کو سمجھنا ہوگا اور بات چیت کے ذریعے حل تلاش کرنا ہوگا۔ یہ رپورٹ دونوں ممالک کے لیے ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لیں اور باہمی اعتماد کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کریں۔ تاہم، “فارن افیئرز” کی رپورٹ کے الفاظ انتہائی سخت ہیں، اور یہ واضح کرتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کی جانب سے اس طرح کی صلاحیت کے حصول کو کسی بھی صورت میں دوستانہ اقدام نہیں سمجھے گا۔

نتیجہ:

امریکی جریدے “فارن افیئرز” کا یہ انکشاف کہ پاکستان امریکہ تک مار کرنے والے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کی تیاری میں مصروف ہے، ایک سنگین سکیورٹی اور سفارتی چیلنج ہے۔ اگرچہ پاکستان نے اس رپورٹ پر کوئی سرکاری ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، لیکن یہ دعویٰ واشنگٹن میں شدید تشویش کا باعث بنا ہے اور اس کے پاکستان-امریکہ تعلقات پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یہ صورتحال جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ کو مزید تیز کر سکتی ہے اور عالمی غیر پھیلاؤ کے نظام کے لیے نئے سوالات پیدا کر سکتی ہے۔ آنے والے دنوں میں، اس رپورٹ کے اثرات اور پاکستان اور امریکہ کے درمیان ممکنہ سفارتی پیشرفت پر گہری نظر رکھی جائے گی۔

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات