google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Iran can sell fuel

A convoy of tanker trucks carrying Iranian diesel crossed the border from Syria into Lebanon, arrives at the eastern town of el-Ain, Lebanon, Thursday, Sept. 16, 2021. The delivery violates U.S. sanctions imposed on Tehran after former President Donald Trump pulled America out of a nuclear deal between Iran and world powers three years ago. The poster of President Bashar Assad, left, and Hezbollah leader Sayyed Hassan Nasrallah, right, with Arabic that reads: "From Lebanon the resistance to Syria the steadfast." (AP Photo/Bilal Hussein)

واشنگٹن ڈی سی: ایک اہم بین الاقوامی پیشرفت میں، امریکی صدر کے خصوصی نمائندے اسٹیو وٹکوف نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے کئی سالوں بعد ایران سے چین کو تیل کی سپلائی پر عائد پابندیاں ہٹا دی ہیں۔ یہ فیصلہ عالمی توانائی منڈیوں اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے گہرے اثرات کا حامل ہو سکتا ہے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں۔ یہ اقدام چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ اور اس کی اقتصادی طاقت کے مظہر کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔

پابندیوں کے خاتمے کا اعلان اور اس کا پس منظر:

امریکی صدر کے نمائندہ خاص اسٹیو وٹکوف نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ امریکہ نے ایران سے چین کو تیل کی سپلائی پر عائد طویل المدتی پابندیاں ختم کر دی ہیں۔ یہ پابندیاں ایران کے جوہری پروگرام اور علاقائی سرگرمیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے عائد کی گئی تھیں، جن کا مقصد ایران کی معیشت کو کمزور کرنا تھا۔ تاہم، اس اعلان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے اپنی خارجہ پالیسی میں ایک اہم تبدیلی کی ہے، جو ممکنہ طور پر عالمی توانائی کی ضروریات اور چین کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کے توازن کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

حقیقت کیا تھی؟ پابندیوں کے باوجود تیل کی سپلائی:

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی پابندیوں کے باوجود، حقیقت یہ تھی کہ ایران پہلے سے ہی چین کو تیل سپلائی کر رہا تھا۔ یہ سپلائی غیر رسمی طریقوں اور مختلف چینلز کے ذریعے جاری تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پابندیاں مکمل طور پر مؤثر ثابت نہیں ہو رہی تھیں۔ چین، اپنی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کے پیش نظر، ایران کے تیل کا ایک اہم خریدار رہا ہے، اور اس نے عالمی دباؤ کے باوجود ایرانی تیل کی خریداری جاری رکھی۔ یہ صورتحال عالمی سیاست میں طاقت کے توازن اور اقتصادی مفادات کے پیچیدہ جال کو واضح کرتی ہے، جہاں رسمی پابندیاں ہمیشہ زمینی حقائق کو تبدیل نہیں کر پاتیں۔

ایران-اسرائیل جنگ اور چین کا دو ٹوک مؤقف:

اس فیصلے کا ایک اہم محرک حال ہی میں ایران اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی کشیدگی اور جنگی صورتحال ہے۔ جب امریکہ نے اس تنازع میں اسرائیل کی حمایت میں شرکت کی، تو چین نے کھل کر امریکہ سمیت پورے مغربی بلاک کو یہ واضح پیغام دے دیا تھا کہ اگر چین کو تیل کی سپلائی میں کمی آئی تو اس کے عالمی سطح پر سنگین نتائج برآمد ہوں گے اور “پوری دنیا تیل کے لیے ترسے گی۔” چین کا یہ دو ٹوک مؤقف اس کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور سیاسی طاقت کا مظہر تھا۔ چین نے یہ واضح کر دیا کہ اس کی معیشت کی ضروریات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اور وہ اپنی توانائی کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

چین کے مؤقف کا فوری اثر:

چین کے اس واضح اور سخت مؤقف کے فوراً بعد ہی امریکی انتظامیہ کی جانب سے ایران پر عائد پابندیاں ہٹانے کا اعلان کر دیا گیا، اور ایرانی تیل کی چین کو سپلائی بھی باضابطہ طور پر بحال ہو گئی۔ یہ واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ عالمی سیاست میں طاقت اور اقتصادی اثر و رسوخ کس قدر اہمیت رکھتے ہیں۔ چین نے اپنی اقتصادی طاقت کو ایک سٹریٹجک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور امریکہ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہ محض ایک اقتصادی فیصلہ نہیں بلکہ ایک اہم سیاسی اور سفارتی فتح ہے جو چین نے حاصل کی ہے۔

جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہوگا: طاقت کا اصول:

یہ واقعہ ایک اہم عالمی اصول کو ثابت کرتا ہے: “جس کے ہاتھ میں بھی ڈنڈا ہوگا وہ اپنی معیشت و سالمیت کا بھرپور دفاع کر سکے گا۔” یہاں “ڈنڈا” سے مراد صرف فوجی طاقت نہیں بلکہ اقتصادی طاقت، تکنیکی برتری، اور سٹریٹجک خود مختاری بھی ہے۔ چین نے اپنی وسیع اقتصادی بنیاد اور عالمی منڈیوں میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی دباؤ کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ یہ واقعہ ان ممالک کے لیے ایک سبق ہے جو اپنی معاشی خود مختاری اور سلامتی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ انہیں صرف دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی اندرونی طاقت اور وسائل کو مضبوط کرنا ہوگا۔

عالمی توانائی منڈی پر اثرات:

ایران کے تیل کی چین کو باضابطہ سپلائی کی بحالی عالمی توانائی منڈیوں پر مثبت اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ ایران دنیا کے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، اور اس کے تیل کی عالمی منڈی میں واپسی سپلائی میں اضافہ کرے گی، جس سے تیل کی قیمتوں میں استحکام آ سکتا ہے۔ یہ ایسے وقت میں اہم ہے جب عالمی معیشتیں مہنگائی اور توانائی کی قلت کے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں۔ تاہم، اس سے دیگر تیل پیدا کرنے والے ممالک، خاص طور پر سعودی عرب اور روس، پر بھی اثر پڑ سکتا ہے، کیونکہ انہیں عالمی منڈی میں زیادہ مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بین الاقوامی تعلقات پر مضمرات:

یہ فیصلہ امریکہ اور ایران کے تعلقات میں ایک نئی نرمی کا اشارہ بھی ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر یہ دونوں ممالک کے درمیان وسیع تر سفارتی بات چیت کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ تاہم، یہ امریکہ اور اس کے خلیجی اتحادیوں، خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، کے تعلقات کو بھی متاثر کر سکتا ہے، جو ایران کے علاقائی اثر و رسوخ پر گہری تشویش رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ چین کے عالمی کردار کو مزید مضبوط کرے گا اور امریکہ کے لیے ایک چیلنج کے طور پر سامنے آئے گا کہ وہ کس طرح چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرتا ہے۔

نتیجہ:

امریکی صدر کی جانب سے ایران کے تیل کی چین کو فروخت پر عائد پابندیوں کا خاتمہ ایک اہم عالمی پیشرفت ہے۔ یہ نہ صرف ایران کی معیشت کے لیے ایک بڑی راحت ہے بلکہ یہ چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ اور اس کی اقتصادی طاقت کا بھی مظہر ہے۔ یہ واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ عالمی سیاست میں اقتصادی طاقت کس قدر اہمیت رکھتی ہے، اور کس طرح ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی پوزیشن کا استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ عالمی توانائی منڈیوں اور بین الاقوامی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کرے گا، اور آنے والے دنوں میں اس کے مزید مضمرات سامنے آئیں گے۔

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات