google-site-verification=aZNfMycu8K7oF6lNUgjpjoa8ZAyM0qfHriwatL8flQ4
Type of people support Fitna Al khawaraj

جب بھی کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہوتا ہے تو ذہن میں فوراً سوال اٹھتا ہے کہ حملہ کس نے کیا اور حملہ کرنے والوں کے لئے سہولت کاری کس نے کی ؟

28 جون کو شمالی وزیرستان، میر علی میں پیش آنے والا واقعہ اس تلخ حقیقت کی ایک اور کڑی ہے کہ حملہ کرنے والے خوارج کو مقامی سطح پر سہولت کاری حاصل تھی۔ یہ سلسلہ مختلف حملوں میں اب تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے، اور ہمیں اس کے پسِ پردہ وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر خوارج کی مقامی سہولت کاری کیوں ہو رہی ہے؟

سب سے پہلے ، مقامی سہولت کاری میں ملوث عناصر ایسے ہیں جن کے مفادات امن میں نہیں بلکہ انتشار میں چھپے ہوتے ہیں۔

یہ وہ “Beneficiaries of Chaos” ہیں جو نہیں چاہتے کہ ریاستی رٹ قائم ہو، کیونکہ اس سے ان کے غیر قانونی دھندے اور اسمگلنگ رک جاتے ہیں۔

ان کے لیے چیک پوسٹس کا مطلب روک ٹوک، تلاشی، اور نگرانی ہے — اور یہی چیز انہیں قابلِ قبول نہیں کیونکہ روک ٹوک سے ان کے غیر قانونی کاروبار اور اسمگلنگ کو نقصان پہنچتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ ہر اس عمل کے خلاف ہیں جو امن قائم کرنے کی کوشش کرے، اور ہر اس گروہ کے حمایتی بن جاتے ہیں جو ریاست کو کمزور کرے۔

ایسے افراد اور گروہ مستقل طور پر یہ بیانیہ پھیلاتے ہیں کہ سیکورٹی فورسز کے آپریشن رک جانے چاہئے اور انہیں قبائلی علاقوں اور پاک افغان سرحدی علاقے سے نکل جانا چاہئے ۔

یہ عناصر عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیکورٹی فورسز کے خوارج کے خلاف آپریشن ظلم کی علامت ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان چیک پوسٹس کو اپنی غیر قانونی سرگرمیوں — جیسے اسمگلنگ، منشیات فروشی، اور اسلحے کی ترسیل — کے لیے رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک بدامنی کا جاری رہنا ہی ان کی معاشی بقا کی ضمانت ہے، کیونکہ انہی حالات میں ان کی غیر قانونی مارکیٹیں پنپتی ہیں۔

دوسری جانب کچھ لوگ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر فتنے کے کارندوں کی مدد کرتے ہیں — کوئی پیسے کے لالچ میں، کوئی قبائلی وفاداری کے تحت، اور کوئی اثر و رسوخ کے حصول کی خاطر۔

وہ خوارج کو پناہ فراہم کرتے ہیں، راستے دکھاتے ہیں، خوراک یا سواری مہیا کرتے ہیں، اور اس کے بدلے میں اپنا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ ان کے لیے ریاست کی رٹ یا قومی سلامتی کی اہمیت ثانوی ہوتی ہے، کیونکہ ان کا پیمانہ صرف ذاتی مفاد ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں، ایک اور خطرناک رجحان “خوف پر مبنی خاموشی” کا ہے۔ بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ ان کے گاؤں یا محلے میں دہشتگرد چھپے ہیں، مگر وہ زبان نہیں کھولتے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بولنے سے خود ان کی جان یا عزت خطرے میں پڑ جائے گی۔ مگر یہ خاموشی، بالآخر دہشتگردوں کی طاقت بن جاتی ہے۔

جب تک دہشتگردوں کو مقامی سطح پر سپورٹ حاصل رہے گی، امن کا قیام ناممکن ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ جس گھر سے دہشتگرد نکلتا ہے، وہ صرف دہشتگرد کا نہیں بلکہ ملک دشمنی کا گڑھ ہے۔ وہ لوگ جو دہشتگردوں کو پناہ دیتے ہیں، یا ان کے خلاف بولنے سے انکار کرتے ہیں، وہ بھی اس فساد کے برابر شریک ہیں۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ریاست کے ہر وفادار شہری کو یہ جنگ اپنی جنگ سمجھنی ہو گی۔ یہ صرف فوج کی لڑائی نہیں — یہ ہر اس شخص کی لڑائی ہے جو امن، ترقی اور پاکستان کی سالمیت کا حامی ہے۔ ہمیں اجتماعی طور پر ان سہولت کاروں کو بے نقاب کرنا ہو گا، چاہے وہ ہمارے درمیان سے ہی کیوں نہ ہوں۔

فتنہ الخوارج نے ہمارے امن، ہماری زمین اور ہمارے بچوں کے مستقبل کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اب خاموش رہنا جرم کے مترادف ہے۔ کھل کر ان عناصر کی مخالفت کیجیے، انکار کیجیے، اور ریاست کا ساتھ دیجیے۔

پاکستان زندہ باد۔

صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہے جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟ سی ڈی اے ہسپتال میں لفٹ خراب ٹریفک پولیس جدید طریقہ واردات