
صنعاء، یمن: اسرائیلی فضائیہ نے گزشتہ رات یمن کے ساحلی شہر الحدیدہ اور اس کے گرد و نواح میں اہم تنصیبات پر فضائی حملے کیے، جن میں نقصانات کی اطلاعات ہیں۔ یمنی عسکری ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی فضائی دفاعی نظام نے اسرائیلی جنگی طیاروں کے حملے کو ناکام بنا دیا اور انہیں یمنی فضائی حدود سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ یہ حملہ خطے میں جاری کشیدگی میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر بحیرہ احمر میں تجارتی جہاز رانی پر یمنی حملوں کے تناظر میں۔
الحدیدہ پر فضائی حملہ اور اہم بندرگاہوں کو ہدف بنانا
اطلاعات کے مطابق، اسرائیلی فضائیہ نے رات گئے یمن کے شہر الحدیدہ پر فضائی حملہ کیا، جس میں شہر کے مختلف حصوں میں نقصانات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ الحدیدہ، یمن کا ایک اہم بندرگاہی شہر ہے اور یہ حوثی کنٹرول میں ہے۔ یہ شہر امدادی سامان کی ترسیل اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے ایک اہم مرکز ہے۔
فضائی حملے میں یمن کی تین اہم بندرگاہوں الحدیدہ، راس عیسیٰ اور صلیف کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ بندرگاہیں یمن کی معیشت اور امدادی سرگرمیوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
- الحدیدہ بندرگاہ: یہ یمن کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے اور ملک میں امداد اور تجارتی سامان کی آمد کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
- راس عیسیٰ بندرگاہ: یہ بنیادی طور پر تیل کی برآمدات کے لیے استعمال ہوتی ہے اور یمن کے تیل کے ذخائر کے قریب واقع ہے۔
- صلیف بندرگاہ: یہ بھی ایک اہم بندرگاہ ہے جو مختلف قسم کے سامان کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ان بندرگاہوں پر حملہ یمن کی معیشت اور انسانی صورتحال پر سنگین اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
راس کناتب پاور پلانٹ پر حملہ
فضائی حملوں میں راس کناتب پاور پلانٹ کو بھی ہدف بنایا گیا۔ یہ پاور پلانٹ الحدیدہ شہر اور اس کے گرد و نواح کو بجلی فراہم کرتا ہے۔ پاور پلانٹ پر حملے سے بجلی کی فراہمی میں خلل پڑ سکتا ہے، جس سے شہریوں کی روزمرہ زندگی متاثر ہوگی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی میں مشکلات پیش آئیں گی۔
پاور پلانٹس پر حملے جنگی قوانین کی خلاف ورزی سمجھے جاتے ہیں، کیونکہ ان کا براہ راست اثر شہری آبادی پر پڑتا ہے۔
یمنی دفاعی نظام کی کارروائی: حملہ ناکام بنا دیا گیا
یمنی عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ یمنی فضائیہ نے الحدیدہ پر ہونے والے فضائی حملے کو ناکام بنا دیا ہے۔ یمنی ایئر ڈیفنس سسٹم نے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کی پہلی لہر فائر کی، جس کے باعث 10 صیہونی جنگی طیارے کسی بھی بڑی کارروائی سے پہلے ہی یمنی فضائی حدود سے نکلنے پر مجبور ہو گئے۔
یہ دعویٰ اگر درست ہے تو یہ یمنی دفاعی نظام کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ یمن، جو کئی سالوں سے خانہ جنگی اور بیرونی مداخلت کا شکار رہا ہے، نے اپنے دفاعی نظام کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ فضائی حملوں کا مؤثر طریقے سے جواب دے سکے۔
یمنی فورسز کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ “یمنی فورسز پوری قوت کے ساتھ دفاع کر رہے ہیں اور کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیں گے۔” انہوں نے مزید کہا کہ “ہم اپنی سرزمین، اپنی بندرگاہوں، اور اپنے عوام کا دفاع کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔”
خطے میں کشیدگی اور اس کے اثرات
اسرائیلی فضائیہ کا یمن پر حملہ خطے میں پہلے سے موجود کشیدگی میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ یمن کے حوثی باغی، جو ایران کے حمایت یافتہ ہیں، نے حال ہی میں بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر حملے کیے ہیں، جس کا مقصد غزہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی حمایت کرنا ہے۔ ان حملوں نے عالمی تجارت کو متاثر کیا ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بحیرہ احمر میں فوجی موجودگی بڑھانے پر مجبور کیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے یمن پر یہ حملہ حوثیوں کے حملوں کے جواب میں ہو سکتا ہے، یا یہ خطے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ تاہم، اس طرح کے حملے تنازعے کو مزید بڑھا سکتے ہیں اور خطے کو ایک وسیع تر تصادم کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔
بین الاقوامی رد عمل اور انسانی صورتحال
اس حملے پر بین الاقوامی رد عمل ابھی واضح نہیں ہے، لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ یمن میں جاری تنازعے اور اس کے انسانی اثرات پر مسلسل تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ یمن پہلے ہی دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا شکار ہے، جہاں لاکھوں افراد کو خوراک، پانی، اور طبی سہولیات کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
بندرگاہوں اور پاور پلانٹس جیسی اہم تنصیبات پر حملے انسانی امداد کی فراہمی اور بنیادی سہولیات تک رسائی کو مزید مشکل بنا سکتے ہیں، جس سے لاکھوں یمنیوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ بین الاقوامی برادری کو اس صورتحال پر فوری توجہ دینے اور تمام فریقین پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور تنازعے کے پرامن حل کے لیے مذاکرات کا راستہ اپنائیں۔
نتیجہ: یمن میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور دفاعی عزم
اسرائیلی فضائیہ کا الحدیدہ پر فضائی حملہ اور یمنی دفاعی نظام کی جانب سے اسے ناکام بنانے کا دعویٰ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی ایک اور علامت ہے۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ یمن میں تنازعہ ایک نیا اور خطرناک رخ اختیار کر رہا ہے، جس میں علاقائی اور بین الاقوامی کھلاڑی براہ راست ملوث ہو رہے ہیں۔
یمنی فورسز کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے 10 صیہونی جنگی طیاروں کو یمنی فضائی حدود سے نکلنے پر مجبور کر دیا، ان کے دفاعی عزم اور صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم، اس طرح کے حملے یمن کی پہلے سے ہی کمزور انسانی صورتحال کو مزید خراب کر سکتے ہیں اور خطے میں امن و استحکام کے لیے نئے خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔ تمام فریقین کو چاہیے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور تنازعے کے پرامن حل کے لیے سفارتی کوششوں کو تیز کریں۔