
پشاور، 8 جولائی 2025: خیبرپختونخوا میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ تشویشناک حد تک پہنچ گیا ہے، جس نے صوبے میں تعلیمی بحران کو مزید شدید کر دیا ہے۔ مسلسل بارہ سال سے صوبائی حکومت کی موجودگی کے باوجود، اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ لاکھوں بچے آج بھی تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف صوبے کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے بلکہ ملک کی مجموعی ترقی پر بھی منفی اثرات مرتب کرے گی۔
Table of Contents
تشویشناک اعداد و شمار: ایک بڑھتا ہوا بحران
خیبرپختونخوا میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو ایک سنگین تعلیمی بحران کی عکاسی کرتا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار اس تشویشناک رجحان کو واضح طور پر پیش کرتے ہیں:
- 2018: 18 لاکھ بچے اسکول سے باہر تھے۔
- 2021: یہ تعداد بڑھ کر 47 لاکھ تک پہنچ گئی۔
- 2023: اسکول سے باہر بچوں کی تعداد مزید بڑھ کر 49 لاکھ ہو گئی۔
- 2025: تازہ ترین تخمینوں کے مطابق، یہ تعداد اب 49.2 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
یہ اعداد و شمار اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ صوبائی حکومت کی بارہ سالہ مسلسل حکمرانی کے باوجود، تعلیم کے شعبے میں بہتری کی بجائے صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ 2018 سے 2025 تک، اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں تقریباً 31 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے، جو کہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ یہ اضافہ صوبے کے تعلیمی نظام کی ناکامی اور پالیسی سازوں کی عدم توجہی کو ظاہر کرتا ہے۔
تعلیمی بحران کی وجوہات: گہری جڑیں
خیبرپختونخوا میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں اس مسلسل اضافے کی کئی گہری وجوہات ہیں:
- بجٹ میں ناکافی سرمایہ کاری: تعلیم کے شعبے کو مطلوبہ بجٹ مختص نہ کرنا اور مختص کیے گئے فنڈز کا مؤثر استعمال نہ ہونا ایک بڑی وجہ ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی کمی، اساتذہ کی عدم دستیابی، اور تعلیمی مواد کی قلت اس کا براہ راست نتیجہ ہے۔
- پالیسیوں کا فقدان اور عمل درآمد میں کمزوری: تعلیمی پالیسیوں کا مؤثر طریقے سے نہ بننا اور جو پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ان پر عمل درآمد میں کمزوری بھی اس بحران کا سبب ہے۔ طویل مدتی اور پائیدار تعلیمی منصوبوں کی کمی نے صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔
- غربت اور معاشی دباؤ: صوبے میں غربت کی بلند شرح اور معاشی دباؤ خاندانوں کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے روکتا ہے۔ بہت سے بچے کم عمری میں ہی مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاکہ اپنے خاندان کی کفالت میں مدد کر سکیں۔
- بنیادی ڈھانچے کی کمی: دور دراز اور دیہی علاقوں میں اسکولوں کی کمی، موجودہ اسکولوں میں بنیادی سہولیات (جیسے بیت الخلا، پینے کا پانی، محفوظ عمارتیں) کا فقدان، اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ اسکولوں کی کمی بھی بچوں کو اسکول سے دور رکھتی ہے۔
- سکیورٹی اور امن و امان کی صورتحال: صوبے کے کچھ علاقوں میں امن و امان کی خراب صورتحال اور دہشت گردی کے واقعات نے بھی تعلیمی اداروں کو متاثر کیا ہے اور والدین کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے خوفزدہ کیا ہے۔
- اساتذہ کی کمی اور تربیت کا فقدان: اہل اساتذہ کی کمی، اساتذہ کی ناکافی تربیت، اور ان کے لیے مراعات کا فقدان بھی تعلیمی معیار کو متاثر کرتا ہے، جس سے والدین کی دلچسپی کم ہوتی ہے۔
- ثقافتی اور سماجی رکاوٹیں: کچھ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے سماجی اور ثقافتی رکاوٹیں بھی اسکول سے باہر بچوں کی تعداد میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔
- آبادی میں اضافہ: صوبے کی آبادی میں تیزی سے اضافہ بھی تعلیمی سہولیات پر دباؤ بڑھا رہا ہے، اور موجودہ وسائل بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا نہیں کر پا رہے۔
تعلیم کے حق سے محرومی: ایک بنیادی انسانی مسئلہ
تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے، اور اسکول نہ جانے والے لاکھوں بچوں کا وجود اس بنیادی انسانی حق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یہ بچے نہ صرف علم اور ہنر سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ انہیں غربت کے چکر سے نکلنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔ تعلیم کی کمی انہیں مستقبل میں بہتر روزگار کے مواقع سے محروم کرتی ہے اور انہیں سماجی و اقتصادی طور پر مزید پسماندہ بنا دیتی ہے۔
یہ صورتحال نہ صرف انفرادی بچوں کی زندگیوں پر منفی اثر ڈالتی ہے بلکہ صوبے اور ملک کی مجموعی ترقی کو بھی روکتی ہے۔ ایک ناخواندہ اور غیر ہنر مند آبادی کسی بھی ملک کی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے اور سماجی مسائل (جیسے جرائم، صحت کے مسائل) کو بڑھاتی ہے۔
صوبائی حکومت کی بارہ سالہ کارکردگی پر سوالیہ نشان
اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گزشتہ بارہ سالوں سے صوبائی حکومت میں مسلسل موجودگی کے باوجود، تعلیمی بحران شدید تر ہوا ہے۔ یہ صورتحال صوبائی حکومت کی تعلیمی ترجیحات، منصوبہ بندی، اور عمل درآمد کی صلاحیت پر سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر بچے کو معیاری تعلیم تک رسائی فراہم کرے، لیکن موجودہ رجحان اس کے برعکس ہے۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت اپنی تعلیمی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لے، بجٹ میں تعلیم کے لیے خاطر خواہ اضافہ کرے، اور اسکول سے باہر بچوں کو واپس اسکول لانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے۔
آگے کا راستہ: بحران سے نکلنے کے لیے اقدامات
اس سنگین تعلیمی بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے:
- تعلیمی بجٹ میں اضافہ: تعلیم کے لیے قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ مختص کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یہ فنڈز مؤثر طریقے سے استعمال ہوں۔
- بنیادی ڈھانچے کی بہتری: نئے اسکولوں کی تعمیر، موجودہ اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی، اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ اسکولوں کا قیام ضروری ہے۔
- اساتذہ کی تربیت اور بھرتی: اہل اور تربیت یافتہ اساتذہ کی بھرتی کی جائے اور ان کی پیشہ ورانہ ترقی کے لیے باقاعدہ تربیت کا انتظام کیا جائے۔
- کمیونٹی کی شمولیت: والدین اور مقامی کمیونٹیز کو تعلیم کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کیا جائے اور انہیں بچوں کو اسکول بھیجنے کی ترغیب دی جائے۔
- مالی امداد اور مراعات: غریب خاندانوں کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے مالی امداد یا دیگر مراعات فراہم کی جائیں، جیسے مفت کتب، یونیفارم، اور وظائف۔
- غیر رسمی تعلیم کے پروگرام: اسکول سے باہر بچوں کے لیے غیر رسمی تعلیمی مراکز اور پروگرام شروع کیے جائیں تاکہ انہیں دوبارہ تعلیمی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔
- سکیورٹی کو یقینی بنانا: تعلیمی اداروں اور بچوں کے لیے محفوظ ماحول کو یقینی بنایا جائے تاکہ والدین خوف کے بغیر اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکیں۔
- ڈیٹا کی درستگی اور نگرانی: اسکول سے باہر بچوں کی تعداد کے درست اعداد و شمار جمع کیے جائیں اور ان کی بنیاد پر پالیسیاں بنائی جائیں، ساتھ ہی ان منصوبوں کی مسلسل نگرانی کی جائے۔
نتیجہ: ایک روشن مستقبل کے لیے تعلیم کی ضرورت
خیبرپختونخوا میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ایک قومی المیہ ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف ایک تعلیمی بحران کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ صوبائی حکومت کی تعلیمی ترجیحات پر بھی سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔
تعلیم ایک قوم کی ترقی کی بنیاد ہے، اور لاکھوں بچوں کو اس حق سے محروم رکھنا مستقبل کو تاریک کرنے کے مترادف ہے۔ یہ وقت ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز – حکومت، والدین، کمیونٹی رہنما، اور سول سوسائٹی – مل کر کام کریں تاکہ ہر بچے کو معیاری تعلیم تک رسائی حاصل ہو سکے۔ ایک تعلیم یافتہ اور ہنر مند نسل ہی خیبرپختونخوا کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔