
اسلام آباد/کابل: ایک اہم انکشاف میں، افغان فوج کے سابق جنرل، ڈائریکٹر ملٹری انٹیلیجنس اور اسپیشل آپریشنز فورسز کے کمانڈر جنرل سید سمیع سادات نے رحمان بونیری کو دیے گئے ایک انٹرویو میں تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان بھارت سے فنڈنگ لے کر پاکستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ جنرل سمیع سادات کے اس بیان نے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس دعوے کو تقویت بخشی ہے کہ افغان طالبان بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں۔ یہ انکشاف پاکستان کی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی میں افغان طالبان اور بھارت کے گٹھ جوڑ کا پردہ ایک بار پھر فاش کر گیا ہے، جس کے خطے کی سکیورٹی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
Table of Contents
پس منظر: پاکستان کے بڑھتے ہوئے خدشات
گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کو افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کا سامنا ہے، جس میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور بلوچ علیحدگی پسند گروہ ملوث ہیں۔ پاکستان نے بارہا یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان دہشت گرد گروہوں کو افغانستان میں پناہ گاہیں حاصل ہیں اور انہیں بیرونی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی عوامی سطح پر یہ بیان دیا تھا کہ افغان طالبان بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں۔ تاہم، ان دعوؤں کو بین الاقوامی سطح پر مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا، اور افغانستان کی موجودہ حکومت نے بھی ان الزامات کو مسترد کیا تھا۔
جنرل سید سمیع سادات کا حالیہ انٹرویو ان پاکستانی دعوؤں کی ایک اہم تصدیق کے طور پر سامنے آیا ہے، جو اس پیچیدہ مسئلے کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
جنرل سمیع سادات کے اہم انکشافات: ایک اندرونی نقطہ نظر
افغان فوج کے سابق جنرل سید سمیع سادات، جو افغانستان کے فوجی اور انٹیلیجنس حلقوں میں ایک اہم شخصیت رہے ہیں، کے انکشافات کو انتہائی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ان کے بیانات نے کئی دہائیوں سے جاری اس گٹھ جوڑ کے بارے میں پاکستانی موقف کو تقویت بخشی ہے۔ انٹرویو میں انہوں نے درج ذیل اہم نکات پر روشنی ڈالی:
- خواجہ آصف کے بیان کی تصدیق:جنرل سمیع سادات نے واضح طور پر پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے اس بیان کی تصدیق کی کہ افغان طالبان بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں۔ یہ تصدیق ایک ایسے شخص کی طرف سے آئی ہے جو افغان فوجی اور انٹیلیجنس ڈھانچے کا حصہ رہا ہے، اور اس کے پاس اندرونی معلومات تک رسائی تھی۔ یہ اس دعوے کو مزید وزن دیتا ہے کہ افغان طالبان کی پالیسیاں صرف افغانستان تک محدود نہیں بلکہ علاقائی سکیورٹی کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔
- افغان طالبان کے بھارت سے قریبی تعلقات:جنرل سمیع سادات نے انکشاف کیا کہ “افغان طالبان کے بھارت سے قریبی تعلقات قائم ہیں”۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب بھارت اور افغان طالبان کے درمیان سفارتی اور تجارتی روابط میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ یہ تعلقات پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہیں، کیونکہ یہ پاکستان کے سکیورٹی مفادات کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ قریبی تعلقات کا مطلب صرف سفارتی میل جول نہیں بلکہ ممکنہ طور پر انٹیلیجنس اور لاجسٹک تعاون بھی ہو سکتا ہے۔
- افغان طالبان کی پاکستان مخالف گروہوں کی پشت پناہی:جنرل سمیع سادات نے زور دیا کہ “افغان طالبان پاکستان مخالف گروہوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں”۔ یہ پاکستان کا ایک دیرینہ دعویٰ ہے کہ TTP اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو افغانستان میں پناہ گاہیں اور سہولیات حاصل ہیں، جہاں سے وہ پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرتے اور انہیں انجام دیتے ہیں۔ ایک افغان جنرل کی جانب سے اس کی تصدیق اس مسئلے کی سنگینی کو نمایاں کرتی ہے۔ یہ پشت پناہی صرف پناہ گاہیں فراہم کرنے تک محدود نہیں بلکہ اس میں تربیت، اسلحہ، اور مالی معاونت بھی شامل ہو سکتی ہے۔
- بھارت سے مالی امداد اور اس کا استعمال:سب سے اہم اور چونکا دینے والا انکشاف یہ تھا کہ “طالبان کو بھارت سے مالی امداد ملتی ہے، جو TTP اور بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کو دی جاتی ہے”۔ یہ دعویٰ پاکستان کے اس موقف کو براہ راست ثابت کرتا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے افغان سرزمین کا استعمال کر رہا ہے۔ TTP پاکستان میں کئی بڑے دہشت گرد حملوں میں ملوث رہا ہے، جبکہ بلوچ علیحدگی پسند گروہ بلوچستان میں پرتشدد کارروائیاں کرتے ہیں۔ اگر یہ مالی امداد براہ راست بھارت سے طالبان کے ذریعے ان گروہوں تک پہنچ رہی ہے، تو یہ علاقائی سکیورٹی کے لیے ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔
- طالبان کی طرف سے دہشت گرد حملوں میں ملوث گروہوں کی فنڈنگ:جنرل سمیع سادات نے مزید کہا کہ “طالبان اُن گروہوں کو فنڈ کرتے ہیں جو پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں ملوث ہیں”۔ یہ بیان مالی امداد کے سلسلے کو مکمل کرتا ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ افغان طالبان نہ صرف بھارت سے فنڈنگ لے رہے ہیں بلکہ اسے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے استعمال بھی کر رہے ہیں۔ یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ افغان طالبان کی پالیسیاں پاکستان کے خلاف جارحانہ نوعیت کی ہیں۔
پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی اور گٹھ جوڑ کا پردہ فاش
جنرل سمیع سادات کے اس بیان سے پاکستان کی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی میں افغان طالبان اور بھارت کے گٹھ جوڑ کا پردہ ایک بار پھر فاش ہو گیا۔ پاکستان نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اسے سرحد پار سے دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس میں بیرونی عناصر ملوث ہیں۔ یہ انکشافات پاکستان کے دعوؤں کو بین الاقوامی سطح پر مزید تقویت دیں گے اور عالمی برادری کو اس مسئلے کی سنگینی پر توجہ دینے پر مجبور کریں گے۔
یہ گٹھ جوڑ پاکستان کے لیے ایک دوہرا چیلنج پیش کرتا ہے: ایک طرف اسے افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہے، اور دوسری طرف اسے ایک ایسے علاقائی کھلاڑی (بھارت) کے ساتھ نمٹنا ہے جو مبینہ طور پر ان دہشت گردوں کی مالی پشت پناہی کر رہا ہے۔
علاقائی سکیورٹی پر اثرات: ایک نیا تناظر
اس انکشاف کے علاقائی سکیورٹی پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے:
- پاکستان-افغانستان تعلقات میں کشیدگی: یہ انکشافات پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات کو مزید خراب کر سکتے ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغان طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں، لیکن ان انکشافات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان اس کے برعکس کام کر رہے ہیں۔
- پاکستان-بھارت تعلقات میں مزید بگاڑ: یہ انکشافات پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلے سے ہی خراب تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا کر سکتے ہیں۔ پاکستان طویل عرصے سے بھارت پر الزام لگاتا رہا ہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے، اور یہ انکشافات ان الزامات کو تقویت دیں گے۔
- علاقائی عدم استحکام: یہ گٹھ جوڑ خطے میں عدم استحکام کو بڑھا سکتا ہے، کیونکہ یہ دہشت گردی کو فروغ دینے اور علاقائی طاقتوں کے درمیان پراکسی جنگوں کو ہوا دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
- عالمی برادری کا کردار: عالمی برادری کو اس صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور اس گٹھ جوڑ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، کیونکہ یہ نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ہے۔
پاکستان کا موقف اور آگے کا راستہ
پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور اس نے اس کے لیے بھاری قیمت ادا کی ہے۔ جنرل سمیع سادات کے انکشافات پاکستان کے موقف کو مزید مضبوط کرتے ہیں کہ اسے سرحد پار سے دہشت گردی کا سامنا ہے جسے بیرونی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
پاکستان کو اب ان انکشافات کو بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر مؤثر طریقے سے اٹھانا ہوگا اور عالمی برادری کو اس گٹھ جوڑ کے خطرات سے آگاہ کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو اپنی سکیورٹی حکمت عملی کو مزید مضبوط کرنا ہوگا تاکہ وہ ان خطرات کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کر سکے۔
آگے کا راستہ پیچیدہ ہے، لیکن اس میں درج ذیل اقدامات شامل ہو سکتے ہیں:
- سفارتی دباؤ: پاکستان کو افغانستان اور بھارت پر سفارتی دباؤ بڑھانا ہوگا تاکہ وہ دہشت گردوں کی پشت پناہی بند کریں۔
- سرحدی انتظام: افغانستان کے ساتھ سرحدی انتظام کو مزید سخت کرنا ہوگا تاکہ دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکا جا سکے۔
- انٹیلیجنس اور آپریشنز: دہشت گرد گروہوں کے خلاف انٹیلیجنس پر مبنی آپریشنز کو تیز کرنا ہوگا تاکہ ان کی صلاحیتوں کو ختم کیا جا سکے۔
- عالمی حمایت: پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں عالمی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھنی ہوں گی۔
نتیجہ: علاقائی امن کے لیے ایک سنگین چیلنج
افغان طالبان اور بھارت کے درمیان پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کا گٹھ جوڑ، جیسا کہ افغان فوج کے سابق جنرل سید سمیع سادات نے انکشاف کیا ہے، علاقائی امن و استحکام کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔ یہ انکشافات پاکستان کے دیرینہ دعوؤں کی تصدیق کرتے ہیں اور اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ دہشت گردی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے پیچھے علاقائی اور بین الاقوامی عناصر ملوث ہو سکتے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ عالمی برادری اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھے اور اس گٹھ جوڑ کو ختم کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کرے۔ جب تک دہشت گردوں کو پناہ گاہیں اور مالی امداد ملتی رہے گی، خطے میں امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ پاکستان کو اپنی دفاعی اور خارجہ پالیسی کو مزید مضبوط کرنا ہوگا تاکہ وہ ان خطرات کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کر سکے اور اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے محفوظ رکھ سکے۔ یہ انکشافات ایک بار پھر اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک عالمی جنگ ہے جس کے لیے مشترکہ اور پرعزم کوششوں کی ضرورت ہے۔