
ریاض/اقوام متحدہ (29 جولائی 2025) – سعودی عرب نے ایک بار پھر عالمی برادری کے سامنے اپنی اصولی پوزیشن کو واضح کرتے ہوئے دوٹوک اعلان کیا ہے کہ جب تک ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست قائم نہیں کی جاتی، اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم نہیں کیے جائیں گے۔ یہ اہم بیان سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اقوام متحدہ میں دو ریاستی حل سے متعلق ایک اہم کانفرنس سے خطاب کے دوران دیا، جس کی مشترکہ میزبانی سعودی عرب اور فرانس کر رہے ہیں۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب مشرق وسطیٰ میں علاقائی امن و استحکام کی کوششیں جاری ہیں اور غزہ کی صورتحال عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔
سعودی موقف کی وضاحت: فلسطینی ریاست شرط اول
شہزادہ فیصل بن فرحان کا یہ بیان محض ایک سفارتی رسمی اعلان نہیں بلکہ یہ ریاض کے اس پختہ عزم کا اعادہ ہے کہ فلسطینی مسئلہ کا پائیدار حل خطے میں امن و استحکام کی کنجی ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ “دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنانا ہی علاقائی استحکام کی کنجی ہے،” اور یہ کہ اقوام متحدہ میں جاری یہ کانفرنس اس سمت میں ایک “سنگ میل” کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ موقف سعودی عرب کی دیرینہ خارجہ پالیسی کا حصہ ہے جو فلسطینی کاز کی حمایت میں ہمیشہ سے سرگرم رہی ہے۔
شہزادہ فیصل بن فرحان نے مزید کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی عرب امن اقدام (Arab Peace Initiative) سے مشروط ہے، جس میں 1967 کی سرحدوں پر مشتمل ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اور مشرقی یروشلم کو اس کا دارالحکومت بنانا شامل ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب ابراہام معاہدوں (Abraham Accords) کے تحت کچھ عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں، لیکن سعودی عرب نے اس معاملے پر ہمیشہ واضح اور غیر متزلزل موقف اپنایا ہے۔ ان کا یہ بیان ان تمام قیاس آرائیوں کو ختم کرتا ہے جو یہ سمجھ رہی تھیں کہ سعودی عرب بھی ممکنہ طور پر جلد ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لے آئے گا۔
اقوام متحدہ کی کانفرنس: دو ریاستی حل پر عالمی اتفاق رائے کی کوشش
یہ کانفرنس، جو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منعقد ہوئی اور جس کی مشترکہ میزبانی سعودی عرب اور فرانس کر رہے ہیں، دو ریاستی حل کو از سر نو اجاگر کرنے اور اس پر عالمی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ایک اہم کوشش ہے۔ اس کانفرنس کا مقصد مختلف ممالک کے درمیان بات چیت کو فروغ دینا اور فلسطینی اور اسرائیلی تنازعہ کے حل کے لیے ایک قابل عمل اور پائیدار فریم ورک تیار کرنا ہے۔ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اپنے خطاب میں عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ محض بیانات پر اکتفا کرنے کے بجائے ٹھوس اقدامات اٹھائیں تاکہ فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق مل سکیں۔
اس کانفرنس میں مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ، سفارتکار، اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور فرانس کا ایک ساتھ اس اہم کانفرنس کی میزبانی کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ بین الاقوامی برادری میں فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے ایک نئی تحریک پیدا ہو رہی ہے۔ یہ کانفرنس خاص طور پر اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب غزہ میں انسانی بحران سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔
غزہ میں انسانی تباہی اور سعودی عرب کی امدادی کوششیں
سعودی وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں غزہ کی پٹی میں جاری “انسانی تباہی کو فوری ختم کرنے” پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نہ صرف اس بحران پر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے بلکہ عملی اقدامات بھی کر رہا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے انکشاف کیا کہ سعودی عرب اور فرانس نے عالمی بینک کے تعاون سے فلسطین کو 300 ملین ڈالر کی مالی امداد فراہم کرنے میں معاونت کی ہے تاکہ وہاں کے عوام کو درپیش مشکلات میں کمی لائی جا سکے۔ یہ امداد غزہ میں بنیادی ضروریات، خوراک، ادویات اور پناہ گاہوں کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرے گی۔
غزہ کی پٹی میں جاری تنازعے نے لاکھوں فلسطینیوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔ بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، ہسپتالوں کی تباہی، اور خوراک و پانی کی شدید قلت نے انسانی بحران کو انتہا پر پہنچا دیا ہے۔ سعودی عرب، دیگر عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر، اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھا رہا ہے۔ یہ مالی امداد اس بات کا ثبوت ہے کہ سعودی عرب صرف بیانات تک محدود نہیں بلکہ عملی طور پر فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔
سعودی عرب کی خارجہ پالیسی اور علاقائی حرکیات
سعودی عرب کی خارجہ پالیسی طویل عرصے سے فلسطینی کاز کی حمایت کی بنیاد پر استوار ہے۔ مملکت نے ہمیشہ دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے اور اسے مشرق وسطیٰ میں امن کا واحد پائیدار راستہ قرار دیا ہے۔ یہ موقف ایک ایسے وقت میں مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے جب خطے میں تعلقات کی تبدیلی کے رجحانات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ ابراہام معاہدوں کے بعد، جس میں متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا، یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ سعودی عرب بھی اسی راہ پر چل سکتا ہے۔ تاہم، ریاض نے بارہا یہ واضح کیا ہے کہ اس کے لیے فلسطینی ریاست کا قیام ایک بنیادی شرط ہے۔
شہزادہ فیصل بن فرحان کا یہ دوٹوک اعلان نہ صرف سعودی عرب کے اس عزم کو دہراتا ہے بلکہ یہ دیگر عرب ممالک کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ فلسطینی مسئلہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اقدام بین الاقوامی سطح پر بھی سعودی عرب کے کردار کو مزید مضبوط کرتا ہے، جو ایک طرف خطے میں استحکام کے لیے کوشاں ہے اور دوسری طرف فلسطینی عوام کے حقوق کا مضبوط حامی ہے۔ یہ اعلان امریکہ کی اس کوشش کے لیے بھی ایک دھچکا ہو سکتا ہے جو سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔
عالمی رد عمل اور آگے کا راستہ
سعودی عرب کے اس واضح موقف پر عالمی سطح پر مختلف رد عمل سامنے آ رہے ہیں۔ فلسطینی قیادت نے اس بیان کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے ایک بڑی حمایت قرار دیا ہے۔ دوسری جانب، اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کی جانب سے ابھی تک کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا، تاہم یہ واضح ہے کہ سعودی موقف مستقبل میں اسرائیل کے ساتھ کسی بھی ممکنہ تعلقات کی بحالی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ رہے گا۔
اقوام متحدہ میں جاری کانفرنس اور سعودی عرب کا یہ دوٹوک موقف دو ریاستی حل کی اہمیت کو دوبارہ عالمی ایجنڈے پر لاتا ہے۔ یہ صورتحال بین الاقوامی برادری پر دباؤ بڑھا سکتی ہے کہ وہ فلسطینی مسئلہ کے حل کے لیے مزید ٹھوس اور مؤثر اقدامات کریں۔ جب تک غزہ میں انسانی بحران جاری ہے اور فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق نہیں ملتے، مشرق وسطیٰ میں حقیقی اور پائیدار امن کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔ سعودی عرب کا یہ اعلان علاقائی حرکیات کو نیا موڑ دے سکتا ہے اور فلسطینی کاز کے لیے ایک نئی امید پیدا کر سکتا ہے۔
ایس ای او کے لیے کلیدی الفاظ (SEO Keywords)
یہ خبر مندرجہ ذیل کلیدی الفاظ کے ساتھ ایس ای او کے لیے آپٹمائز کی گئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد تک رسائی حاصل ہو سکے:
- سعودی عرب اسرائیل تعلقات
- فلسطینی ریاست قیام
- شہزادہ فیصل بن فرحان
- دو ریاستی حل
- غزہ انسانی بحران
- سعودی عرب خارجہ پالیسی
- مشرق وسطیٰ امن
- عرب امن اقدام
- اقوام متحدہ کانفرنس
- ورلڈ بینک فلسطین امداد
- اسرائیل فلسطین تنازعہ
- ریاض کا موقف
- غزہ امدادی کارروائیاں
- سعودی عرب فلسطین تعلقات
- عالمی برادری کا کردار
- آزاد فلسطینی ریاست
- مشرق وسطیٰ استحکام
- عرب ممالک اسرائیل
- سعودی عرب کا اعلان
- اسرائیل تعلقات کی بحالی
اختتامیہ
سعودی عرب کی جانب سے فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل سے تعلقات قائم نہ کرنے کا دوٹوک اعلان مشرق وسطیٰ کی سفارتکاری میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ نہ صرف فلسطینی کاز کے ساتھ سعودی عرب کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ ہے بلکہ یہ علاقائی اور عالمی سطح پر دو ریاستی حل کی اہمیت کو بھی دوبارہ اجاگر کرتا ہے۔ غزہ میں جاری انسانی تباہی کے تناظر میں یہ اعلان مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے، اور یہ عالمی برادری پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے مزید سنجیدہ اقدامات کرے۔ جب تک یہ تنازعہ حل نہیں ہوتا اور فلسطینیوں کو انصاف نہیں ملتا، خطے میں پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ سعودی عرب کا یہ موقف مستقبل میں علاقائی امن عمل کو نئی سمت دے سکتا ہے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جدوجہد کو مزید تقویت بخش سکتا ہے۔